Wednesday 29 November 2023

دودھ ایک مکمل غذا ۔ ٖڈاکٹر محمد اسلم فاروقی

 

دودھ ایک مکمل غذا

ٖڈاکٹر محمد اسلم فاروقی

 

 

                قدرت نے کرہ ارض پر جتنے بھی نبا تات و حیوانات جاندار وں کی شکل میں پیدا کئے ان کی پیدائش کے ساتھ ساتھ ان کی غذائی ضروریات کی تکمیل کے سامان بھی پیدا فرمادیئے۔ حیوانات کی غذائی عادتیں جدا جدا ہیں۔ ایسے حیوانات جو دودھ پلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انہیں سائنسی اصطلاع میں Mamalکہا جاتا ہے۔دودھ آسانی سے ہضم ہونے والی ایک مکمل غذا ہے۔ انسان کے بشمول دودھ پلانے والے دیگر حیوانات کے بچے پیدائش کے بعد مخصوص عرصے تک چونکہ سخت اور ثقیل غذا ئیں ہضم نہیں کر سکتے۔ لہذا قدرت نے دودھ میں ایسی صلاحیت رکھی ہے کہ وہ بچے کے لئے درکار تمام غذائی ضروریات کی تکمیل کر سکے۔ تمام اطباء اس بات پر متفق ہیں کہ ماں کا دودھ ہی بچے کے لئے سب سے بہتر غذا ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو دودھ ایک نعمت غیر مترقبہ ہے۔ انسان جس وقت اس عالم میں قدم رکھتا ہے تو سب سے پہلے جس غذا کو استعمال کرتا ہے۔ وہ ماں کا دودھ ہے۔ خالق کائنات نے انسان کو جس قدرنعمتیں عطاء کی ہیں ان میں دودھ کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ زمانہ قدیم سے ہی دودھ کو ایک مکمل غذا سمجھا جاتا رہا ہے۔ دودھ بذات خود انسانوں کی پسند یدہ غذا رہا ہے۔ بلکہ دودھ سے بنی اشیاء گھی‘ مکھن‘ پنیر‘ دہی‘ لسی اور دودھ سے بنی انواع و اقسام کی مٹھائیاں انسانی غذا کا جزو لا نیفک بنی ہوئی ہیں۔ مختلف زبانوں میں دودھ کے مختلف نام ہیں اردو‘ ہندی‘ پنجابی میں اسے دودھ کہتے ہیں۔ عربی میں لبن فارسی میں شیر‘ انگریزی میں Milk‘ لاطینی زبان میں Lectus کہتے ہیں جیسا کہ ہم جانتے ہیں دودھ مائع حالت میں ہوتا ہے۔ اس کا رنگ سفید ہوتا ہے اور مختلف جانوروں کے دودھ کے مزے اور بو میں ہلکا سا فرق پایا جاتا ہے۔ دودھ کی ماہیت کے بارے میں اطباء میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض اسے خون قرار دیتے ہیں اور بعض اسے غذا کارس قراردیتے ہیں ایک یوم میں جس مقدار میں جانوروں میں دودھ تیار ہوتا ہے اسے دیکھ کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اتنی مقدار میں جانوروں میں خون تیار نہیں ہوسکتا۔ لہذا دودھ خون نہیں بلکہ مخصوص غذائی مادہ ہے۔ دودھ معتدل قبض کشا اور قدرے دست آور ہوتا ہے۔ جوانی کو تادیر قائم رکھتا ہے۔ اکثر قسم کے بخار‘ دل کے امراض‘ یرقان اور پیاس کی شدت کے لئے انتہائی مفید غذا ہے۔ہر عمر کے انسان کے علاوہ دیگر جانداروں کے لئے بھی دودھ آب حیات کی مانند ہے۔ اس سے اعصابی کمزوری دور ہوتی ہے اور دماغ کو تقویت ملتی ہے۔ طالب علموں‘ اساتذہ‘ علماء‘ وکلاء‘ ادیبوں اور صحافیوں کے لئے دودھ میں وہ تمام اجزاء موجود ہیں جو انسان کی پرورش اور نگہداشت کے لئے ضروری ہیں یہ جسم کے پٹھوں اور دوسرے اعضاء کی پرورش کے لئے پروٹین فراہم کرتا ہے اور دانتوں اور ہڈیوں کی تعمیر کے لئے چونا یعنی کیلشیم فراہم کرتا ہے۔ اس میں 15 فی صد پروٹین 8فی صد فاسفورس اور 6 فی صد فولاد ہوتا ہے۔ بڑھتے بچوں کو مناسب مقدار میں دودھ نہ دیا جائے تو وہ کمزور ہو جاتے ہیں اور ان کی آنکھوں میں خرابی پیدا ہو جاتی ہے۔

                زمانہ قدیم سے ہی دودھ انسان کی مرغوب غذارہا ہے۔ دنیا کے بیشتر مذاہب نے بھی دودھ کی اہمیت و افادیت بیان کی ہے دودھ کی وجہ سے ہندو گائے کو ماتا کا درجہ دیتے ہیں‘اسلام نے بھی دودھ کی اہمیت کو واضح کیا ہے۔ اور اسے بہترین غذا قرار دیا ہے۔ حضور اکرم ﷺ جب کبھی دودھ نوش فرماتے تو یہ دعا کرتے ”اللھم بارک لنا فیہ وذدنامنہ“  (اے اللہ اس میں برکت ڈال اور ہمیں زیادہ دے) یہاں ایک نکتہ قابل غور ہے کہ کھانے سے قبل جتنی بھی مسنون دعائیں آتی ہیں ان میں اس سے بہتر غذا عطا فرما کی دعا ہے لیکن جہاں تک دودھ کا معاملہ ہے تو چونکہ دودھ سے بہتر کوئی غذا نہیں اس لئے دودھ پینے کی دعا میں مزید بہتر غدا کی تلقین نہیں کی گئی۔ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پسندیدہ بندوں کو جنت کی بشارت دی ہے اور احادیث میں آتا ہے کہ جنت میں دودھ اور شہد کی  نہر یں ہوں گی حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ  روایت کرتے ہیں کہ رسوال اللہ ﷺ  کو پینے کی چیزوں میں سے دودھ بہت مرغوب تھا۔ انسان عموماً گائے‘بھینس اور بکری کا دودھ استعمال کرتا ہے۔ انسان کی دودھ کے لئے بڑھتی ہوئی ضرورت کے پیش نظر صنعتی پیمانے پر دودھ پیدا کیا جارہا ہے۔ ڈیری کا کاروبار ایک منفعت بخش کاروبار بنتا جارہا ہے۔ شمالی ہند خصوصاً پنجاب سے بھینسیں لائی جاتی ہیں اور انہیں دودھ آو رغذائیں کھلا کر اور مخصوص قسم کے انجکشن لگا کر زیادہ سے زیاد دودھ حاصل کیا جاتا ہے۔ دودھ اور اس  سے متعلقہ اشیاء کی پیدا وار کے لئے گجرات کا آنند شہر ہندوستان میں کافی شہرت رکھتا ہے۔ ٹکنالوجی کی ترقی کے ساتھ دودھ کو زیادہ عرصے تک محفوظ رکھنے کے نئے نئے  طریقے ایجاد ہوئے۔ پاوڈر کی شکل میں بھی آج دودھ دستیاب  ہے۔ چھوٹے بچوں کے لئے بازار میں مختلف اقسام کے دودھ کے ڈبے ملتے ہیں لیکن ہر ڈبے پر یہ ہدایت واضح طور پر لکھی ہوتی ہے کہ ”ماں کا دودھ بچے کے لئے بہتر ہے“۔

                جہاں عمدہ دودھ حفظان صحت کی پابندی کرتے ہوئے استعمال کرنا آب حیات مانا گیا ہے وہیں خراب دودھ صحت کے لئے کافی نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ دودھ میں یہ خاصیت ہے کہ وہ بہت جلد اپنے اطراف کی مضرچیزوں کے اثرکو قبول کرلیتا ہے۔ چنانچہ  کچے دودھ کے برتن کو مریض کے کمرے میں رکھ دیا جائے تو اطبائے جدید کے نزدیک مرض کے جراثیم بہت تیزی سے دودھ میں نشونماپاتے ہیں۔ ماہرین کے بموجب کچے دودھ میں لاکھ احتیاط کے باوجود بیکٹریا کی بھاری مقدار شامل ہو جاتی ہے۔ لہذا بغیر گرم کئے کچا دودھ پینا صحت کے لئے مضر ثابت ہو سکتا ہے۔اسی طرح دودھ کو بار بار گرم کرنے سے بھی اس میں موجود وٹا من ضائع ہو جاتے ہیں۔ دودھ کو جوش دینے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ تیز آگ پر اسے چار پانچ منٹ گرم کرکر کھولنے دیں اس کے بعدٹھنڈا کر کے استعمال کریں۔ دودھ کے گاڑھے پن کو ناپنے کے لئے Lectometreنامی آلہ دریافت ہوا ہے۔ خالص دودھ کی پہچان یہ ہے کہ خالص دودھ کی بہ نسبت ملاوٹ والا دودھ بہت جلد خراب ہو جاتا ہے۔ ہاتھ کو دھو کر ایک انگلی دودھ میں ڈبوئیں اگر انگلی کو دودھ لگا رہے تو یہ خالص ہے ورنہ دودھ میں پانی ملا ہوا ہے۔ دودھ کی اسی ملاوٹ سے اردو زبان میں بھی ایک محاورہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی مشہور ہے اس کے علاوہ دودھ کا دھلا‘ دودھو نہاؤ وغیرہ محاورے مشہور ہیں۔ جہاں تک بچوں کو ماں کے دودھ پلانے کا سوال ہے تو یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ماں کے دودھ سے ہی بچے کی مناسب پرورش ہوتی ہے اور دودھ کے ذریعہ ماں کے اثرات بچوں میں منتقل ہوتے ہیں۔ عرب میں چونکہ دایاؤں کے ذریعہ بچوں کو دودھ پلا کر پرورش کرنے کا نظام تھا چنانچہ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ احمق اور فاحشہ عورتوں سے دودھ نہ پلواؤ کیونکہ دودھ کا اثر بچہ کے جسم اور اخلاق پر پڑتا ہے۔ اسلام نے بچے کو دودھ پلانے کی عمومی مدت دو سال رکھی ہے اور ڈھائی سال کے عرصے سے زیادہ دودھ پلانا حرام قرار دیا ہے۔ ماں کی صحت کا خیال کرتے ہوئے دو سال کے عرصے سے کم میں بھی بچے کا دودھ چھڑایا جاسکتا ہے۔ منجملہ ان تمام باتوں کے دودھ خدا کی ایک عظیم نعمت ہے۔ اس لئے اسے خدا کا نام لے کر پینا چاہئے اور پینے کے بعد خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے اور دل میں یہ خیال ہو کہ جس طرح خدا نے دنیا میں ہمیں لذیذدودھ عطا فرمایا اسی طرح جنت میں بھی عطا فرما۔

                آج کے اس مصروفیت والے زمانے میں جب کہ انسان اپنی مصروفیات میں گم ہو کر رہ گیا ہے اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں اپنے مقررہ وقت پر کھانا کھانے کی فرصت بھی نہیں ملتی انہیں دودھ کا استعمال زیادہ کرنا چاہئے تاکہ جسم کو درکار کیلشیم اور توانائی اس سے حاصل ہو سکے۔ مائع ہونے کی وجہ سے دودھ بالغ افراد میں غذا کا نعم البدل تو نہیں کہلا سکتا لیکن کسی حدتک غذا کی کمی سے ہونے والے نقصانات کی پابجائی ضرور کرسکتا ہے۔

                کمزور انسانوں کے لئے بھی دودھ کا استعمال بہت فائدہ مند ثابت ہوتا  ہے۔ خاص طور پر بڑھتی عمر والے بچوں کے لئے بوڑھون کے لئے دودھ کا بکثرت استعمال ان کی کمزور ی دور کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے اور اس سے توانائی بھی حاصل ہوتی ہے۔

                صحت کا خاص خیال رکھنے والے طبقات بھی دودھ کے زیادہ سے زیادہ استعمال پر خصوصی توجہ دیتے ہیں اور صبح کی اولین ساعتوں میں کثرت کرنے کے بعد دودھ کے استعمال کی تلقین کی جاتی ہے۔ اسی طرح عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ لوگ رات میں سونے سے کچھ دیر قبل لازمی طور پر مقررہ مقدار میں دودھ استعمال کرتے ہیں۔ ایسا کرنے سے صحت کی برقراری میں بہت بڑی حدتک مددمل سکتی ہے اور ان کی نشوونما بھی بہتر طریقہ پر ہوا کرتی ہے۔

٭٭٭

 

  

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Powered By Blogger