Wednesday 29 November 2023

حرام اور حلال جانور ٖ۔ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی

 

حرام اور حلال جانور

ٖڈاکٹر محمد اسلم فاروقی

                خالق کائنات نے اس دنیا میں کم و بیش 18000 چھوٹی بڑی مخلوقات کو پیدا کیا اور ان میں اپنی تخلیق کے شاہکار انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر اسے منصب خلافت سے سر فراز کیا۔ چھوٹی بڑی ہزاروں مخلوقات خدا نے کسی نہ کسی طرح انسان کے لئے بنائیں اور انسان کا مقصد تخلیق خدا کی عبادت قرار دیا۔ اس سرزمین پر جتنے بھی جاندار ہیں ان میں توازن پیدا کرنے کے لئے خدا نے ایک کی ضرورت دوسرے پر منحصر کر دی۔ جاندار اپنی غذائی ضروریات کی تکمیل کے لئے دوسرے جانداروں پر انحصار کرتے ہیں اور اسی طرح زندگی کا چکر چلتا رہتا ہے اور کائنات میں تو ازن قائم رہتا ہے۔ اگر ایک قسم کے جاندار وں کا دوسرے پر انحصار نہ ہوتا تو اس کائنات کا توازن بگڑ جاتا ار ہر طرف جانور اور پیڑپودے ہی نظر آتے اور انسانی زندگی کا وجود نا ممکن ہو جاتا ہے۔ انسان کے علاوہ دوسرے جانوروں کی غذا ئی ضروریات محدود ذرائع سے پوری ہو تی ہیں۔ لیکن انسان کی غذائی ضروریات میں تنوع پایا گیا ہے۔ زمین سے پیدا ہونے  والے  غلے ترکاری پھل پھول کے علاوہ انسان کی غذائی ضرورتوں کی تکمیل کا بہت حدتک انحصار جانوروں پر بھی ہے۔ مختلف قسم کے جانوروں کے گوشت دودھ اور چربی وغیرہ سے انسان کی غذائی ضرورتوں کی تکمیل ہوتی ہے۔ خصوصاً سر دعلاقوں کے لوگوں کے لئے گوشت کا استعمال ناگزیر ہے۔ جانوروں کا گوشت انسان کی غذا میں داخل ہو کر اس کے بدن کااہم جزو بنتا ہے۔ قدرت نے مختلف جانوروں میں مختلف خصوصیات اور اثرات رکھے ہیں اور یہ اثرات گوشت کے استعمال کے ساتھ انسان کی فطرت اور مزاج پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ چنانچہ ابتدائے آفرینش سے سلیم ا لطبع انسانوں نے اچھے اور برے جانوروں کی تقسیم کردی۔ انسان درحقیقت سلیم ا لطبع واقع ہوا ہے اور وہ اپنے لئے اچھی چیزپسند کرتا ہے۔ لیکن زمانے میں اچھے اور برے لوگ واقع ہوتے ہیں اور بھی جاہلانہ رسوم کے سبب یا کسی اور وجہ سے انسانوں میں اچھے اور برے کی تمیز اٹھ جاتی ہے تو انسان بری چیزکو بھی اچھی چیز سمجھنے لگتا ہے۔ خدا تعالیٰ نے ہر زمانے میں انسانوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے دنیا میں پیغمبر مبعوث فرمائے تاکہ بھٹکے ہوئے لوگوں کو راہ راست پر لایا جاسکے۔ پیغمبروں کی تربیت خداتعالیٰ راست کرتا ہے۔ لہذا جانوروں کے معاملہ میں انہوں نے جن چیزوں کوخبائث قرار دیا وہ حقیقتاً خبیث ہیں اور جن چیزوں کو طیبات سمجھا وہ حقیقتاً پاک ہیں انسان اگر پاک چیزیں استعمال کرے گا تو اس کے جسم سے نیک اعمال ظاہر ہوں گے اور اگر وہ خبیث چیزیں استعمال کرے گا تو جانوروں کی خباثت کے زیر اثر اس کے اخلاق خراب  ہو ں گے اور اس کے جسم سے سرزد ہونے والے اعمال برے ہوں گے۔ اسلام ایک دین فطرت ہے اور زندگی کے دوسرے پہلوؤں کے ساتھ ساتھ اسلام نے قرآن اور حدیث کے ذریعہ حرام و حلال جانوروں کے فرق کو واضح کردیا۔ شریعت اسلام نے جتنے جانور حرام قرار دیئے ان سب پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ دواصولوں کے تحت حرام قرار دیئے گئے۔ ایک یہ کہ کوئی جانور اپنی فطرت و طبیعت کے اعتبار سے خبیث ہو دوسرے یہ کہ اس کے ذبح کا طریقہ غلط ہو جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ مردار قرار دیا جائے گا۔ اور ہر زمانے میں مردار جانور کو حرام اور ممنوع قرار دیا گیا قرآن شریف کے سورہ مائدہ کی تیسری آیت میں جانوروں کی حرمت کے تعلق سے نو باتیں بیان کی گئی ہیں۔ ان میں قسم اول کے تحت خنزیر کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ حضوراکرم ﷺ نے جانوروں کے خبیث یا حرام ہونے کے چند ضابطے بیان فرمائے ایک تو یہ کہ وہ جانور خبیث ہے جس کی شکل میں بدلتے ہوئے بعض سابقہ اقوام پر خدا تعالی نے عذاب نازل فرمایا تھا۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ     ”و جعل منھم القردت والھن دیزۃ“یعنی بعض قوموں کو خنزیر اور بندرکی شکل میں بطور عذاب مسخ کیا گیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جانوروں کی یہ دونو ں قسمیں طبع سلیم کے اعتبار سے خبیث ہیں۔ خبیث جانوروں کی ایک قسم ایسی ہے جو چیر پھاڑ کر تے ہیں یا چیزوں کو اچک لیتے۔ شیر‘ ببر‘ چیتا‘ سانپ‘ بچھو‘ چھپکلی‘ مکھی‘ چیل اور باز وغیرہ۔ اس قسم کے خبیث جانوروں میں شامل ہیں۔ چنانچہ حضوراکرم ﷺ نے ضابطہ کے طور پر فرمایا کہ ہر درندہ جانور جو دانتوں سے پھاڑ کر کھاتا ہے جیسے شیر بھیڑیا وغیرہ وہ اور پرندوں میں وہ جانور جو اپنے پنجے سے شکار کرتے ہیں جیسے باز شکرہ وغیرہ۔ یہ سب حرام ہیں یا ایسے جانور جن کی طبیعت میں ذلت اور نجاست میں ملوث ہونا شامل ہے جیسے چوہا یا مردار خور جانور جیسے گدھ وغیرہ یا گدھا یہ سب چیزیں ایسی ہیں کہ ہر ذی شعور انسان ان کے طبعی خواص اور ان کے مضرہونے سے واقف ہے۔ حرام ہیں۔ سورہ مائدہ کی تیسری آیت میں جانوروں کی حرمت سے متعلق جونو باتیں بیان کی گئی ہیں وہ اس طرح ہیں اس آیت میں کہا گیا کہ تم پر مرد ار جانور حرا م کئے گئے۔ مردار جانور وہ ہیں جو بغیر ذبح کئے کسی بیماری کے سبب یا طبعی موت سے مرجائیں۔ ایسے مردار جانور کا گوشت‘ طبی‘ طور پر اور روحانی طور پر انسان کے لئے مضر ہے۔ حدیث شریف کے ذریعہ حضور اکرم ﷺ نے مردار جانوروں میں دو کو یعنی‘ مچھلی اور ٹڈی کو مسثنیٰ قرار دیا۔ اس آیت کے ذریعہ حرام کی جانے والے دوسری چیزیں خون ہے۔ یہاں خون سے مراد بہنے والا خون ہے۔ تاہم جگر اور تلی کو جو کہ باوجود خون کی شکل ہونے کے مسثنی قرار دیا گیا ہے۔ تیسری چیز خنزیر کا گوشت ہے۔ اس میں اس کا پورا بدن جس میں چربی وغیرہ بھی شامل ہے سب کو حرام قرار دیا گیا چوتھے وہ جانور حرام قرارد دیا گیا جو غیر اللہ کے لئے نامزد کیا گیا ہو اور ذبح کے وقت اللہ کے علاوہ کسی غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔ پانچویں وہ جانور حرام قراردیا گیا جو گلا گھونٹ کر ہلاک کیا گیا ہو یا خود ہی جال وغیرہ میں پھنس کر اس کا دم گھٹ گیاہو۔ چھٹے وہ جانور حرام ہیں جو کسی شدید ضرب سے ہلاک ہوا ہو۔ ساتواں وہ جانور جو کسی پہاڑ ٹیلہ یاانونچی عمارت یا کنویں وغیرہ میں گر کر مر جائے وہ بھی حرام ہے۔ اٹھویں وہ جانور جو کسی ٹکر یا تصادم سے ہلاک ہو جائے۔ خواہ کسی گاڑی یا موٹر کے تصادم سے یا جانورو ں کے آپسی تصادم سے ہلاک۔ ہو تو وہ حرام ہے۔ نویں وہ جانور حرام ہے جسے کسی درندے نے چیر پھاڑ کر کے زخمی کردیا  اور اس کے سبب وہ مر گیا ہو۔ آخر میں یہ چھوٹ دی گئی ہے کہ اگر ان جانوروں میں سے تم نے کسی کو زندہ پالیا اور ذبح کرلیا تو وہ حلال ہو گیا۔ اس کا کھانا جائز ہے۔ اس کے علاوہ زمانہ جاہلیت کی رسوم کے تحت کعبہ کے گرد کھڑے کئے گئے پتھر وں پر ذبح کئے جانے والے جانور اور قسمت آزمائی کے تیر زلم سے مارے ہوئے جانوروں کو بھی حرام قرار دیا گیا اور جہاں تک حلال جانوروں کا تعلق ہے اس کا اشارہ سورہ مائدہ کی پہلی آیت میں اور سورۃ انعام کی آیات ۳۴۱۔۴۴۱ میں کیا گیا۔ جس کا خلاصہ یہی ہے کہ پہلے بیان کئے گئے حرام جانوروں کی قسموں کے علاوہ چو پائے مویشی اور گھریلوجانور جیسے اونٹ‘ گائے‘ بھینس‘ بکری وغیرہ جانوروں کی آٹھ قسمیں حلال کی گئیں۔ حلال و حرام جانوروں کے بارے میں ایک نکتہ قابل غور یہ بھی ہے کہ اللہ نے جن جانوروں کو حلال کیا ہے وہ پیدا تو ایک یا دو ہوتے ہیں اور ان کی پیدائش کا وقفہ بھی طویل ہوتا ہے۔ روز آنہ لاکھوں جانور ذبح کئے جاتے ہیں لیکن ان کی نسل ختم ہی نہیں ہوتی۔ اس کے بر خلاف حرام جانور جیسے خنزیر کتاوغیرہ یہ ایک ایک جھول میں کئی کئی بچے جنم دیتے ہیں لیکن قدرت کا انتظام دیکھئے کہ یہ بہت کم تعداد میں ہمیں دکھائی دیتے ہیں۔ حلال جانوروں کی پرورش و حفاظت کا انتظام اللہ تعالیٰ نے اس انداز میں کر رکھا ہے کہ جتنی زیادہ تعداد میں یہ ذبح ہوں گے اتنی  ہی زیادہ تعداد ان کی دکھائی دے گی۔ بہر حال جانوروں کے حلال و حرام ہونے کی تقسیم بتاتے ہوئے اللہ نے انسان کو جہاں اپنے احکامات پر عمل آوری کے ذریعہ اس کے محبوب بندے بننے کی دعوت دی ہے تو وہیں اس کی مناسب جسمانی اور روحانی تربیت کا سامان کیا ہے۔

٭٭٭ 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Powered By Blogger