Wednesday 31 July 2013

یونیورسٹی آف حیدرآباد کاوش 2013 میں لیکچر اردو تحقیق کے مسائل

Urdu seminar kawish 2013 University of Hyderabad Dr Aslam Faroqui

http://www.youtube.com/watch?v=pyHMNr77JOg


اردو تحقیق کے مسائل اور ان کا حل
 یونیورسٹی آف حیدرآباد کے اردو سمینار کاوش 2013 میں پیش کردہ مقالہ
http://www.youtube.com/watch?v=x8CiFrg4Zc4

                                 

    ماں کی انگلی تھام کر چلنا بہت اچھا لگا


                                                                                    از : ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی

                                                                                    صدر شعبہ اردو گرراج گورنمنٹ کالج نظام آباد

   دنیا میں جتنے بھی انسانی رشتے ہیں۔ان میں سب مقدس اور عظمت والا رشتہ ’ ’ماں“ کا ہوتا ہے۔ماں اولاد کو جنم دیتی ہے۔ پال پوس کر بڑا کرتی ہے۔ اور ایک کمزور اور ناتواں پودے کو تناور درخت میں تبدیل کرتی ہے۔ اولاد کو ماں سے محبت ہو یا نہ ہولیکن ماں ہر حال میں اپنی اولاد پر ممتا نچھاور کرتی رہتی ہے۔ خود بھوکی رہے گی لیکن اولاد کے لئے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرے گی۔ بچہ بیمار ہوجائے تو رات بھر جاگ کر اس کی تیمار داری کرے گی۔ اپنی اولاد کو ترقی کرتا دیکھ کر ماں خوش ہوتی ہے۔ اور امید کرتی ہے کہ بڑھاپے میں اس کی اولاد اس کا سہارا بنے گی۔ لیکن اکثر حالات میں ماں کی یہ خواہش پوری نہیں ہوتی۔ آج کل تو یہ کہاوت مشہور ہو گئی ہے کہ ایک ماں دس بچوں کو تو پال لیگی۔ لیکن دس بچے مل کر ایک ضعیف اور بوڑھی ماں کو نہیں پال رہے ہیں۔ اپنے والدین کے ساتھ ایسے غلط برتا کے باوجود ماں اپنے بچے کے بہتر مستقبل لئے ہمیشہ دعا گو رہتی ہے۔دنیا کے ہر مذہب اور سنجیدہ معاشرے میں ماں کو اعلیٰ مقام اور مرتبے پر رکھا گیاہے۔ مذہب اسلام کی تعلیمات میں کہا گیا ہے کہ ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے۔بوڑھے ماں باپ کی خدمت جہاد سے بہتر ہے۔والدین سے صلہ رحمی ‘عمر کی درازی اور روزی میں کشادگی کا سبب ہے۔اور میدان حشر میں لوگوں کو ان کی ماں کی نسبت سے پکارا جائے گا۔ حضرت ابو حریرہؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا کہ اے خدا کے رسول ﷺ میرے نیک سلوک کا سب سے ذیادہ حق دار کون ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا تیری ماں۔اس نے پوچھا پھر کون تو آپ ﷺ نے فرمایا تیری ماں۔اس نے پوچھا پھر کون تو آپ ﷺ نے فرمایا تیرا باپ۔ نیک اور صالح اولاد والدین کی خدمت کرتے ہوئے اپنا فرض پدری پورا کرتی ہے۔ ہر سنجیدہ انسان ماں کے تئیں اچھے جذبات رکھتا ہے۔ لیکن ایک تخلیق کار جس نے اپنی ماں کے سایہ دار آنچل تلے اپنی زندگی کی دھوپ کاٹی ہو اور زندگی میں ماں کا بھر پور پیار حاصل کیا ہو جب وہ شاعر ہو اور اپنے فن کے ذریعے ماں کے بارے میں جذبات کا اظہار کرے تو دنیا کے سبھی فرماں بردار بچے اس کے ہم خیال بن جاتے ہیں۔ یوں تو شعرا اور ادیبوں نے گاہے گاہے اپنے فن کے ذریعے ماں کے مقدس رشتے کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔لیکن موجودہ دور کے ایک جذباتی شاعر منور رانا نے اپنی شعری تصنیف ” ماں“ کے ذریعے اس رشتے کو بھر پور خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ماں کا ذکر عباد ت ہے۔ اور شادی سے قبل ہر بچے کی محبوبہ اس کی ماں ہوتی ہے۔ اپنی کتاب اور ماں کے بارے میں اپنی شاعری کی وجہہ بیان کرتے ہوئے منور رانا لکھتے ہیں کہ”میں پوری ایمان داری سے اس بات کا تحریری اقرار کرتا ہوں کہ میں دنیا کے سب سے مقدس اور عظیم رشتے کا پرچار صرف اس لئے کرتا ہوں کہ اگر میرے شعر پڑھ کر کوئی بھی بیٹا اپنی ماں کا خیال کرنے لگے ‘رشتوں کی نزاکت کا احترام کرنے لگے تو شائد اس کے اجر میں میرے کچھ گناہوں کا بوجھ ہلکا ہو جائے۔ منور رانا نے سیدھے سادھے لیکن جذباتی انداز میں ماں سے اپنی وابستگی اور ان کے لئے ماں کی قربانیوں کو پیش کیا ہے۔ آئیے ان کے اور ایک بیٹے کا سفر زندگی میں ماں کے جذبات جاننے کے لئے ہم بھی اس سفر میں شامل ہوتے ہیں۔
            شہر کے رستے ہوں چاہے گاں کی پگڈنڈی   ماں کی انگلی تھام کر چلنا بہت اچھا لگا
             انسان کا بچپن معصومیت کے ساتھ ساتھ ضد بھی سکھاتا ہے۔ خواہشات کی تکمیل نہ ہو تو رونا بھی جلد آتا ہے۔اپنے بچے کے آنسوں کو جذب کرتے ہوئے ماں اپنے دو پٹے کی حفاظت یوں کرتی ہے۔
            میں نے روتے ہوئے پوچھے تھے کسی دن آنسو                      مدتوں ماں نے نہیں دھویا دو پٹہ اپنا
اور یہی دوپٹا بچے کے لئے تاروں بھرے آسمان سے بہتر ہوجاتا ہے۔
            تیرے دامن میں ستارے ہیں تو ہونگے اے فلک       مجھ کو اپنی ماں کی میلی اوڑھنی اچھی لگی
 بچے کی پرورش کے لئے غریب اور بے سہارا ماں خود دکھ جھیلتی ہے۔ ضرورت پڑنے پر محنت مزدوری کرتی ہے۔ لیکن جب وہ اپنے بچے کو پروان چڑھتا دیکھی ہے تو اپنی ساری تکان بھول جاتی ہے۔
            دن بھر کی مشقت سے بدن چور ہے لیکن                 ماں نے مجھے دیکھا تو تھکن بھول گئی ہے
بیٹا ماں کی محبت اور شفقت کے سائے میں پروان چڑھتا ہے اور اس قابل ہو جاتا ہے کہ گھر سے باہر نکل کر زندگی کے حوادث کا سامنا کر سکے۔ بیٹا ماں کے ہاتھ کی روٹی کھا کر کامیابی کی تلاش میں یہ سوچ کر اور اس یقین کے ساتھ نکلتا ہے کہ
            ابھی زندہ ہے ماں میری مجھے کچھ بھی نہیںہوگا                      میں گھر سے جب نکلتا ہو دعابھی ساتھ چلتی ہے
بیٹا شام میں تھکا ماندہ گھر آتا ہے۔ زندگی کی راہوں میں کبھی اسے دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ گھر میں گم سم بیٹھا ہے لیکن اسے احساس ہے کہ اس کی زندگی کے مسائل عارضی ہیں۔ اور ماں کی دعا ں سے ضرور حل ہو جائیں گے۔
            گھیر لینے کو جب بھی بلائیں آگئیں               ڈھال بن کر سامنے ماں کی دعائیں آگئیں
جب بیٹے کی زندگی میں غم کی بلائیں کچھ ذیادہ ہی ہوجاتی ہیں تو ماں اپنے بیٹے کو ٹوٹنے بکھرنے نہیں دیتی اور اسے ممتا سے بھرا پیار دیتے ہوئے اپنی باہوں میں چھپا لیتی ہے۔ ماں کی باہوں کی محفوظ پناہ گا ہ کو یاد کرتے ہوئے بیٹا کہتا ہے۔
            اب بھی چلتی ہے جب آندھی کبھی غم کی رانا                        ماں کی ممتا مجھے باہوں میں چھپالیتی ہے
حادثوں سے بچنے کے لئے بیٹا اپنی ماں کی دعاں کو موثر ہتھیار تصور کرتا ہے۔ اور اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ
            حادثوں کی گرد سے خود کو بچانے کے لئے                ماں ہم اپنے ساتھ بس تیری دعا لے جائیں گے
بچے کو اپنی ماں سے بے حد لگا ہے۔ زندگی کی دھوپ چھاں میں ہر دم اسے اپنی ماں ہی دکھائی دیتی ہے۔ عباد ت کے لئے جب موذن کی اذان کانوں میں پڑتی ہے تو اسے لگتا ہے کہ اسے اپنی ماں بلا رہی ہے۔
            کبھی کبھی مجھے یوں بھی اذاں بلاتی ہے                      شریر بچے کو جس طرح ماں بلاتی ہے
ہندوستان میں وطن کی مٹی کو ماں کا درجہ حاصل ہے۔ مادر وطن کی آبرو کی حفاظت اور اسے لٹنے سے بچانے کے لئے اور اسے
 سر حدوں کی حفاظت کے لئے جب بھی ضروورت پڑی مادر وطن کے لالوں اور جیالوں نے اپنی جانیں نچھاور کی ہیں۔ لیکن کچھ لوگ اپنے وطن کے لئے جان قربان کرنے والے جیالوں کی قربانیوں کو فراموش کردیتے ہیں۔ اور انہیں ملک دشمن کہنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ایسے میں شدت جذبات سے مغلوب ہوتے ہوئے یہ جیالے کہتے ہیں۔
            سر پھرے لوگ ہمیں دشمن جاں کہتے ہیں                 ہم جو اس ملک کی مٹی کو بھی ماں کہتے ہیں
اپنے وطن کی سرزمین کو ماں کا درجہ دیتے ہوئے یہاں کے نوجوان اسے چھوڑ کر کہیں جانا نہیں چاہتے۔
            یہیں رہوں گا کہیں عمر بھر نہ جاں گا                                زمین ماں ہے اسے چھوڑکر نہ جاں گا
لیکن پاپی پیٹ کا معاملہ ہے۔ انسان کو زندہ رہنے کے لئے دو وقت کی روٹی کی جستجو کرنا ہے۔ اور یہ روٹی وطن میں نہ ملے تو بیٹا وطن سے دور پردیس جاتا ہے۔ اپنی ماں سے ان جذبات کے ساتھ رخصت ہوتا ہے۔
            پردیس جارہے تو تعویذ باندھ لو                  کہتی ہیں مائیں بچوں سے اپنے پکار کے
بچہ ماں کی دعائیں اور نصیحتیں لئے روزگار کی تلاش میں گھر سے دور سفر پر روانہ ہوجاتاہے۔ سفر میں دن تو کسی طرح کٹ جاتا ہے۔ لیکن رات آتے ہی بیٹا ماں کو اور ماں بیٹے کو یاد کرنے لگتے ہیں۔
            وہ تو لکھا کے لائی ہے قسمت میں جاگنا          ماں کیسے سو سکے گی کہ بیٹا سفر میں ہے
بیٹا پردیس پہونچتا ہے اور روزگار کے حصول کے لئے زمانے کے سر د گرم سہنے لگتا ہے۔ بیٹے کے بہتر مستقبل پر ناز کرتی ہوئی ماں برادری میں اپنی ناک اونچی کرتی ہے۔ لیکن ماں کی محبت کا بھوکا بیٹا کچھ اور ہی سوچتا ہے۔
            برباد کردیا ہمیں پردیس نے مگر                  ماں سب سے کہہ رہی ہے کہ بیٹا مزے میں ہے
ایک عرصے بعد بیٹا گھر لوٹ کر آتا ہے۔ کیونکہ اس کا باپ اس سے جدا ہوگیا ہے۔ ماں کا سہارا چھن گیا۔ باپ کی جدائی پر اسے ماں کا غم بانٹنا ہے۔ اور اس کے لئے ایک گھنی چھاں فراہم کرنا ہے۔باپ نے عمر بھر کی اپنی کمائی لٹا کر زندگی کی دھوپ میں اپنے آپ کو جھلساتے ہوئے اپنے خاندان کے لئے ایک آشیاں بنایا تھا۔ لیکن اس آ شیاں کی چھاں میں وہ ٹھیک سے سو بھی نہ سکا تھا کہ ہمیشہ ہمیشہ کی ابدی نیند نے اسے سلادیا۔ زندگی بھر ماں باپ کو پلٹ کر نہ پوچھنے والے بیٹے اور رشتے دار اپنا حق لینے پہونچ گئے۔ تب ماں کی محبت میں ڈوبا بیٹا وراثت کی تقسیم کے بعد اپنے حصے میں آئی ماں کی دولت کو سنبھالتے ہوئے بے اختیار کہہ اٹھتا ہے کہ
                         کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دکاں آئی                  میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا مرے حصے میں ماں آئی
شوہر کی جدائی کے بعد بیوی پر غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے۔ اپنی ماں کو سہارا دیتے ہوئے بیٹا لالچی ہوجاتا ہے۔ اسے خدا کا انصاف یاد آتا ہے۔ جیسے کو تیسا کے مصداق اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے وہ ماں کی خدمت میں یہ سوچ کر جٹ جاتا ہے کہ
            یہ سوچ کے ماں باپ کی خدمت میں لگا ہوں                        اس پیڑ کا سایہ مرے بچوں کو ملے گا
موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ ہر انسان کو یہ دنیا کا اسٹیج چھوڑ کر جانا ہے۔ چنانچہ اپنے دکھوں کے خاتمے کے ساتھ بچے کی ماں بھی اپنے بیٹے کو زندگی کی مشکل راہوں میں چلنا سکھا کر اسے روتا ہوا چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔ بیٹا ماں کی جدائی پر رو پڑتا ہے۔ لیکن اسے تسلی دینے والے آجاتے ہیں۔
            منور ماں کے آگے یوں کبھی کھل کر نہیں رونا                       جہاں بنیا د ہو اتنی نمی اچھی نہیں لگتی
ماں کی جدائی کی خبر سبھی بیٹوں کو دی جاتی ہے۔ لیکن زندگی کے کاروبار میں مصروف بیٹوں کو اتنی فرصت نہیں ملتی کہ وہ اپنی ماں کے جنازے کو کاندھا دینے کے لئے وقت پر پہونچ سکیں۔ اس طرح بیٹوں کے انتظار میں ماں کا جنازہ یو ں گویا ہے۔
            اب دیکھئے کون آئے جنازے کو اٹھانے                    یوں تار تو میرے سبھی بیٹوں کو ملے گا
ماں کو الوداع کہنے کے بعد پیارابیٹا گھر آتا ہے۔ اور اپنی کھوئی ہوئی وراثت کو کھوجنے لگتا ہے۔
            میں نے کل شب چاہتوں کی سب کتا بیں پھاڑ دیں    صرف ایک کا غذ پہ لکھا لفظ ”ماں“ رہنے دیا
اس طرح منور رانا نے ماں کے تعلق سے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔
۔



حالی کے تنقیدی نظریات

سوال :حالی کے تنقیدی نظریات کیا ہیں؟(یا) مقدمہ شعر و شاعری میں حالی نے کن تنقیدی نظریات کو پیش کیا۔(یا) اُردو تنقید میں حالی کے مقام کا تعین کیجئے۔(یا) حالی اُردو کے پہلے باضابطہ نقاد ہیں۔ ان کی تنقیدی کتاب کے حوالے سے اس خیال کی وضاحت کیجئے؟
حالی کا تعارف:         
خواجہ الطاف حسین حالی (1914-1837) اُردو کے مشہور شاعر ‘ انشا پرداز سوانح نگار اور نقاد گذرے ہیں۔ غالب کے شاگرد تھے اور سر سید کی اصلاحی تحریک میں حصہ لیا‘ ابتداءمیں قدیم طرز کی غزل گوئی کی ۔بعد میں ادب کی مقصدیت کے قائل ہوئے انہوں نے انجمن پنجاب کے مشاعروں مےں نظمےں سناتے ہوئے نظم گوئی کو فروغ دےا۔ مشہور مسد س مدو جزراسلام 1879ءمےں لکھی۔ سوانح نگاری مےں آپ کی ےادگار کتابےں حےات سعدی 1882ءےادگار غالب1897اور حےات جاوےد 1901ءمشہور ہےں۔ اپنی شاعری کے مجموعے کو اےک طوےل مقدمہ کے ساتھ شائع کےا جس مےں شاعری کے بارے مےں اُصولی بحثےں کی گئےں۔ بعد مےں ےہ کتاب ”مقدمہ شعر و شاعری“ کے عنوان سے 1893ءمےں علٰحدہ شائع ہوئی اور اس کتاب کو اتنی مقبولےت حاصل ہوئی کہ حالی ”جدےد اُردو تنقےد کے بانی“ قرار پائے۔ ذےل مےں اس کتاب کے حوالے سے حالی کے تنقےدی نظرےات پےش کئے جاتے ہےں۔
حالی کے تنقیدی نظریات :حالی اُردو کے پہلے نقاد ہےں جنہوں نے باضابطہ طور پر اُردو تنقےد کے اصول مقرر کئے ۔ 1893ءمےں حالی نے اپنے دےوان کو اےک طوےل مقدمہ کے ساتھ شائع کےا۔ اس مےں شاعری کے اُصولوں سے بحث کی گئی۔ حالی نے زمانے کے مزاج کو دےکھتے ہوئے ”ادب برائے ادب“ نظرےہ کی نفی کی اور ادب کے مقصدی پہلو کو اُجاگر کرتے ہوئے”ادب برائے زندگی“ کا نظرےہ پےش کےا۔ اور اُردو شاعری اور اسکی شعری اصناف پر اپنے تنقےدی خےالات کا اظہار کےا۔ حالی کے ےہ تنقےدی خےالات جدےد اُردو تنقےد کا نقطہ آغاز ثابت ہوئے جب حالی کی تنقےدی کتاب شائع ہوئی تو ہر طرف سے ان کی مخالفت کی گئی لےکن وقت کے ساتھ حالی کے تنقےدی خےالات کو تسلےم کےا گےا اور وہ اُردو کے پہلے تنقےد نگار قرار پائے۔ مولوی عبدالحق نے مقدمہ شعر و شاعری کو اُردو تنقےد کا پہلا نمونہ کہا اور آل احمد سرور نے اُسے اُردو شاعری کا پہلا منشور قرار دےا مقدمہ شعر و شاعری مےں پےش کردہ حالی کے تنقےدی نظرےات اس طرح ہےں۔

شعر کی تاثیر :حالی نے لکھا کہ شاعری کی تاثیر ہوتی ہے اور اس سے فائدہ اٹھانا چاہ شاعری زندگی کو بہتر بنانے مےں مدد گار ہوسکتی ہے اور دنےا مےں اس سے بڑے بڑے کام لئے جاسکتے ہےں۔ اپنے خےال کی تائےد مےں انہوں نے کئی مثالےں پےش کی ہےں۔ قدےم ےونان مےں اےتھنس والوں کو بار بار شکست ہونے لگی تووہاں کے شاعر سولن نے درد انگےز اور ولولہ خےز اشعار پڑھے۔ جس سے اےتھنس والوں کی غےرت جاگ گئی۔ اور انہوں نے اپنے دشمن کو شکست دےدی ۔اےشےاءمےں شاعری سے بڑے اہم اور مفےد کام لئے گئے ۔عرب شاعر اعشیٰ کے تعلق سے ےہ بات مشہور تھی کہ وہ اپنی شاعری مےں جس کسی کی مدح کرتا وہ عزےز و نےک نام ہوجاتا اور جس کی ہجو کرتا وہ ذلےل و خوار ہوجاتا۔ اس نے اےک خاتون کی لڑکےوں کے بارے مےں قصےدہ لکھا تا کہ اُن لڑکےوں کی آسانی سے شادی ہوسکے۔ اعشیٰ کا قصےدہ پڑھ کر بڑے بڑے عرب لوگوں نے ان لڑکےوں سے شادی کرلی۔ اس طرح مختلف واقعات سے حالی نے ثابت کےا کہ اچھی شاعری سے تبدےلی اور اصلاح کا کام لےا جاسکتا ہے۔ اس طرح حالی کے ان خےالات کی بہت لوگوں نے سخت مخالفت کی اور کہا کہ شاعری کا کام تو لطف اندوزی ہے۔ لےکن حالی نے جو کچھ کہا تھا وہ وقت کا تقاضہ تھا۔ اس وقت شاعری کا مقصدی ہونا بہت ضروری تھا۔ اس لئے کچھ عرصہ بعد لوگ حالی کے خےالات سے اتفاق کرنے لگے۔ حالی نے شاعری کو سوسائٹی کے تابع قرار دےا اور لکھا کہ سوسائٹی (Society) کا مذاق اچھا ہوتو اچھی شاعری ہوگی ورنہ زمانے کا مزاج دےکھ کر شاعر بھی شاعری مےں مبالغہ آرائی کرنے لگےں گے۔ بری شاعری سے زمانے کا مزاج بگڑے گا اس لئے شاعر اور سماج دونوں کو اپنے مزاج کو سدھارنا ہوگا۔

شعر کی تعرےف:حالی نے اپنے مقدمہ مےں شعر کے بارے مےں مختلف ماہرےن کی تعرےفےں پےش کی ہےں۔ اور لکھا ہےکہ شاعری اےک قسم کی نقالی ہے۔ مصوری اور بت تراشی کی طرح شاعر بھی لفظوں کے ذرےعہ اےک پر اثر خےالی تصوےر پےش کرسکتا ہے۔ اےک محقق کی شعر کی تعرےف پےش کرتے ہوئے حالی لکھتے ہیں کہ جو خےال اےک غےر معمولی اور نرالے طور پر لفظوں کے ذرےعہ اس طرح ادا کےا جائے کہ سامع کا دل اس کو سن کر خوش ےا متاثر ہو وہ شعر ہے۔
شاعری کی تےن شرطےں:     حالی نے اپنے مقدمہ مےں شاعری کےلئے تےن شرطےں (1 تخےل(2 مطالعہ کائنات (3 تفحص الفاظ ‘ قراردی ہےں۔
(1 تخےل: تخےل کے بارے مےں حالی نے لکھا کہ انگرےزی مےں اسے (Imagination) کہتے ہےں ےہ اےسی صلاحےت ہے جو مشق سے حاصل نہےں ہوتی بلکہ خداداد ہوتی ہے لےکن اگر کسی مےں ےہ صلاحےت ہوتو اُسے مطالعہ کے ذرےعہ بڑھاےا جاسکتا ہے ۔ حالی نے انگرےزی اور عرب ماہرےن ادب کی تعرےفوں اور اشعار کی مثالوں کے ذرےعہ قوتِ متخےلہ کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔
(2 مطالعہ کائنات : حالی اچھی شاعری کےلئے کائنات کا مطالعہ کو ضروری قرار دےتے ہےں۔ ہر فنکار کےلئے ےہ ضروری ہےکہ وہ خدا کی بنائی ہوئی اس وسےع و عرےض کائنات کا مشاہدہ کرے اور مختلف چےزوں سے متحد اور متحد چےزوں سے مختلف خصوصےتوں کو کائنات سے اخذ کرسکے۔ اور اس مطالعہ کے سرماےہ کو اپنے ےاد کے خزانے مےں رکھے اور وقتِ ضرورت انہےں اپنی شاعری مےں استعمال کرے۔
(3 تفحص الفاظ: حالی کہتے ہےںکہ شاعری کو بہتر بنانے کےلئے کلام مےں اچھے الفاظ استعمال کرنا چاہئے ۔جس طرح اےک مصور اپنی تصوےر کو خوبصورت بنانے کےلئے بہتر رنگوں کا استعمال کرتا ہے اسی طرح شاعر کو بھی سونچ سمجھ کر الفاظ استعمال کرنا چاہےے اور پےش کئے گئے خےالات کو کانٹ چھانٹ کر درست کرناچاہےے اس طرح شاعر کا کام انگو ٹھی مےں نگےنہ جڑنے کا کام ہو جائے۔
شعر کی خوبےاں:حالی شعر کی خوبےاں کرتے ہوئے اس مےں سادگی جوش اور اصلےت کے ہونے پر زور دےتے ہےں۔
(1سادگی :حالی کہتے ہےںکہ شعر کو سادہ اور آسان ہونا چاہےے تاکہ سننے والے اُسے سمجھ سکےں شاعری کا مقصد ترسےل ہوتا ہے اگر شاعر کا پےش کردہ خےال سامع ےا قاری تک نہ پہنچ سکے تو شاعری کا مقصد مکمل نہےں ہو سکتا اس لئے حالی سادگی پر زور دےتے ہےں ۔ وہ کہتے ہیں کہ پیچیدہ خیالات کو بھی عام بول چال کی زبان میں پیش کیا جانا چاہئے۔ ورنہ شعر سادگی کے زیور سے محروم سمجھا جائے گا۔ حالی کہتے ہیں کہ اردو قصیدہ نگاری میں پر شکوہ الفاظ کے استعمال سے قصیدوں کی سادگی متاثر ہوئی ہے۔ وہ غزل اور مثنوی میں بھی سادگی کی حمایت کرتے ہیں۔
جوش : جوش سے حالی کی یہ مراد ہے کہ شعر میں مضمون اےسے بے ساختہ الفاظ اور موثر انداز میں پیش کیا جائے جس سے معلوم ہو کہ شاعر نے اپنے ارادے سے مضمون نہیں باندھا بلکہ خود مضمون نے شاعر کو مجبور کردیا کہ اُسے شعر پیش کیا جائے۔ ایسا شعر پر اثر ہوتا ہے اور سننے والے کے دل پر اثر کرتا ہے۔ جوش سے مراد نہیں کہ مضمون کو جوشیلے الفاظ میں بیان کیا جائے بلکہ دھےمے الفاظ سے بھی چھری اور خنجر کا کام لیا جاسکتا ہے۔ عربی میں جوشیلی شاعری کی مثالیں بہت ملتی ہیں۔
اصلیت :حالی کا خیال ہے کہ اچھے شعر کی بنیاد اصلیت پر ہوتی ہے۔ اگر شعر میں وہ بات بیان کی جائے جس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں تو ایسا شعر جھوٹا خواب بن جائے گا۔ یعنی شاعری میں انسانی عقل اور مشاہدے پر مبنی باتیں بیان کی جانی چاہئے۔ حالی سے قبل اکثر شعراءنے شاعری میں مبالغہ آرائی سے کام لیا تھا تا کہ شعر کی رونق بڑھائی جائے لیکن حالی کے زمانے میں زندگی مسائل سے دوچار تھی اس لئے حالی شاعری میں جھوٹ اور مبالغے سے سخت نفرت کرتے تھے۔ بری شاعری پر اپنے غصہ کا اظہار کرتے ہوئے حالی نے مسدس میں کہا کہ
برا شعر کہنے کی اگر کچھ سزا ہے
عبث جھوٹ بکنا اگر نا روا ہے
تو وہ محکمہ جس کا قاضی خدا ہے
مقرر جہاں نیک و بد کی سزا ہے
گہنگاروہاں چھوٹ جائینگے سارے
جہنم کو بھر دینگے شاعر ہمارے
شاعری میں جھوٹ سے بچنے کےلئے حالی اپنی نظم شعر سے خطاب میں کہتے ہیں کہ
وہ دن گئے کہ جھوٹ تھا ایمان شاعری                   قبلہ ہو اُس طرف تو نہ کیجئیو نماز تو
نیچرل شاعری :حالی نے شاعری کو فطرت سے قریب رکھنے کی تلقین کی ہے۔ اور لکھا کہ قدیم دور کے شاعروں میں فطری شاعری زیادہ دکھائی دیتی ہے۔ بعد میں شاعری میں مبالغہ آرائی شامل ہوتی گئی۔ حالی نے اپنے مقدمہ میں الفاظ لفظ اور معنی کا رشتہ اور وزن و قافیہ کی اہمیت بھی اجاگر کی ہے۔ اس کے بعد اپنے مقدمہ کے دوسرے حصہ میں اردو شاعری کی اصناف غزل‘مثنوی‘ قصیدہ‘ مرثیہ اور رباعی کی اصلاح کے بارے میں اپنے خیالات پیش کئے۔
غزل کی اصلاح :حالی نے غزل کی اصلاح کو سب سے زیادہ اہم اور ضروری قرار دیا ہے۔ کیونکہ غزل عوام میں مقبول ہے اور جو مقبول صنف ہو اس کی اصلاح بھی اہم ہوجاتی ہے۔ غزل پر حالی نے جو اعتراضات کئے ہیں ان میں یہ بھی شامل ہے کہ غزل میں عشق نہ بھی کیا ہو تو وہ غزل میں عاشقی کا دعویٰ کرتا ہے۔ غزل کے مضامین محدود ہیں۔ اس میںقدیم زمانے میں کہی گئی باتوں کو الٹ پلٹ کر بار بار بیان کیا جاتا ہے۔ غزل کے الفاظ میں شراب‘ ساقی‘ صراحی‘ جام وغیرہ کا ذکر اسطرح کیا جاتا ہے کہ پڑھنے والا اس برائی کی طرف مائل ہوجاتا ہے۔ غزل میں محبوب کو مرد کے انداز میں پیش کیا جاتا ہے جو باعث شرم ہے ۔غزل کی زبان بھی ایک خاص دائرے سے باہر قدم نہیں رکھتی اور صنعتوں کے استعمال سے شعر کی تاثیر جاتی رہتی ہے۔ اسلئے حالی غزل میں موجود ان باتوں کو غلط سمجھتے ہوئے غزل کی اصلاح چاہتے ہیں۔ اور وہ غزل میں عشق و عاشقی کے علاوہ زندگی کے دیگر موضوعات اور مسائل پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔ وہ غزل میں حقیقی عشق پر زور دےتے ہیں جو ایک بندے کو خدا سے ہوتا ہے۔ غزل میں ایک ہی طرح کے الفاظ کی وہ مخالفت کرتے ہیں۔ حالی نے غزل پر اپنے زمانے کے اعتبار سے اعتراضات کئے تھے۔ لیکن حالی کے ان اعتراضات کو کچھ لوگوں نے تسلیم نہیں کیا۔
مثنوی :حالی نے مثنوی کو شاعری کی کارآمد صنف قرار دیا ہے۔ کیونکہ غزل یا قصیدہ میں قافیہ کی وجہہ سے پابندی ہوتی ہے اور ہر قسم کے مسلسل مضامین بیان نہیں کئے جاسکتے کیونکہ مثنوی کے ہر شعر میں قافیہ ردیف بدلتا رہتا ہے ۔ عرب شاعری میں مثنوی کا رواج نہیں تھا جبکہ فارسی میں کئی مثنویاں لکھی گئیں۔ اس لئے فارسی شاعری کو عرب شاعری پر فوقیت دی جاتی ہے۔ حالی اردو مثنوی پر اعتراضات کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مثنوی سے جےسے کام لیا جانا چاہئے تھا ویسا نہیں لیا جاسکا۔ مثنویوں میں صرف عشقیہ مضامین بیان کئے گئے۔ شاہی زندگی کے بیان تک مثنوی کو محدود کردیا گیا اور اس میں حقیقی یا عام زندگی کے واقعات اور مشاہدات نہیں ملتے۔ بلکہ مافوق الفطرت باتیں جےسے پری‘ دیو بھوت‘ پریت اور تعویز جادوئی گھوڑا وغیرہ نا ممکن باتوں کو مثنویوں میں پیش کیا گیا اور خوابوں کے محل تیار کروائے گئے۔ حالی مثنوی کی اصلاح کےلئے کہتے ہیں کہ
۱ مثنوی کے اشعار اسطرح مسلسل بیان ہونے چاہئےں کہ وہ ایک دوسرے سے جڑے ہوں اور دونوں کے بیچ میں کہیں رکاوٹ محسوس نہ ہو۔
۲ حالی کہتے ہیں کہ مثنوی کی بنیاد نا ممکن اور فوق العادت باتوں پر نہ رکھی جائے کیونکہ اب علم اور سائنس کی ترقی سے اےسی فرسودہ باتوں کو رد کیا جارہا ہے اسلئے ان سے بچنا چاہئے۔
۳ مبالغہ شعر کو خوبصورت بنانے کےلئے ہوتا ہے اس لئے اسے اس مقصد کے ساتھ استعمال کرنا چاہئے اور واضح جھوٹ بولنے کےلئے نہیں استعمال کرنا چاہئے۔
۴ حالی کہتے ہیں کہ موقع محل کے اعتبار سے بات کرنی چاہئے۔ اور پڑھنے والے کو بات سمجھ میں آنے میں کسی قسم کی رکاوٹ یا غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے۔
۵ مثنوی میں پیش کردہ کردار مقامات اور واقعات فطرت اور عادت کے موافق ہونے چاہئیں۔
۶ مثنوی میں جو خیال یا واقعہ بیان کیا گیا ہو اسکی تردید نہیں کرنی چاہئے۔ ایک مثنوی میں شاعر دھان اور سرسوں کے کھیتوں کو ساتھ ساتھ پیش کیا ہے یہ بات خلاف واقعہ ہے۔ کیونکہ دھان خریف میں ہوتے ہیں اور سرسو ںربیع میں۔
۷ مثنوی میں جن باتوں کو تفصیل سے بیان کرنا چاہئے انہیں تفصیل سے بیان کرنا چاہئے۔ اور جن باتوں کو اشاروں میں بیان کرنا ہے انہیں اشاروں تک محدود رکھنا چاہئے۔ بے شرمی کی باتوں کو تفصیل سے بیان نہیں کرنا چاہئے۔ اسطرح حالی نے مثنوی کی اصلاح کی کوشش کی ہے۔
قصیدہ :قصیدہ ایسی نظم کو کہتے ہیں جس میں کسی کی مدح (تعریف) یا ہجو (مذمت) کی جاتی ہے۔ عام طور پر قصیدے بادشاہوں یا بزرگان دین کی تعریف میں لکھے جاتے ہیں۔ اس میں پر شکوہ الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں عام طور پر قصیدے بادشاہوں کی تعریف میں انعام کے حصول کے لئے لالچ میں لکھے گئے اور اس میں بے جا تعریف بھی داخل ہوگئی۔ اسلئے حالی اس قسم کی قصیدہ نگاری کی مخالفت کرتے ہیں جس میں سچے جذبات کااظہار نہیں ہوتا ہو۔ حالی پر مقصدیت اور حقیقت نگاری کا اثر غالب تھا۔ اسلئے وہ جھوٹ کو برداشت نہیں کرتے تھے جبکہ قصیدہ نگاری کی شان بڑھانے کےلئے اردو شعراءنے اس میں مبالغہ آرائی سے کام لیا۔
مرثےہ :  شاعری کی اصطلاح مےں مرثےہ اےسی نظم کو کہتے ہےں جس مےں امام حسےن ؓ کی شہادت اور واقعات کربلا بےان کئے جاتے ہےں لکھنو مےںانےس اور دبےر نے مرثےہ نگاری کو عروج پر پہنچاےا اس مےں سراپا نگاری جذبات نگاری اور کردار نگاری کی اچھی مثالیں ملتی ہےں۔ حالی مرثےہ کی تعرےف کرتے ہےں کےونکہ اس سے اعلیٰ اخلاق کا سبق ملتا ہے۔وہ مرثیے کی صنف کو استعمال کرنے اور قوم کے اعلٰی افراد کی وفات پر ان کی تعریف اور توصیف پر مبنی مرثیے لکھنے کی تلقین کرتے ہیں۔حالی کے ےہ تنقےدی خےالات اپنے زمانے مےں کافی مقبول ہوئے اور آج بھی حالی کے ان خےالات کو اُردو تنقےد کا آغاز سمجھا جاتا ہے۔
حالی کے تنقےدی نظرےات کا جائزہ:حالی نے مقدمہ شعر و شاعری مےں” ادب برائے زندگی“ کا نظرےہ پےش کےا ہے انہوں نے تاثےر پر زور دےا اور اچھے شاعر اور اچھی شاعری کے لئے کچھ پےمانے مقرر کئے انہوں نے شاعری کی اصنافِ غزل ‘ مثنوی‘ قصےدہ ‘ مرثےہ وغےرہ مےں اصلاح کی باتےں کہےں۔ حالی نے اس مقدمہ مےں زےادہ تر شعر کی اخلاقی اور سماجی حےثےت پر نظر ڈالی ہے۔ اس کی وجہہ ےہ ہےکہ حالی سے پہلے شاعری مےں صرف جمالےاتی پہلو پر نظر رکھی جاتی تھی۔ جب کہ رد عمل کے طور پر حالی شاعری کے جمالےاتی پہلو کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف اس کے افادی اور اخلاقی پہلو پر زور دےا۔ لےکن کوئی بحث اور کوئی نظرےہ اس وقت تک مکمل نہےں ہوسکتا جب تک اس کا ہر پہلو اُجاگر نہ کےا جائے۔ مقدمہ مےں ےہ بات کھٹکتی ہے اس لئے حالی پر کی جانے والی تنقےدےں درست لگتی ہےں۔ حالی نے غزل کو صرف عشق و عاشقی تک محدود قرار دےا تھا جب کہ حالی کے زمانے مےں غالب نے فلسفےانہ اور حکےمانہ خےالات پےش کرتے ہوئے واضح کردےا تھا کہ غزل صرف عشق تک محدود نہےں ہے اسی طرح دےگر اصناف پر حالی کے خےالات سے اختلاف کی گنجائش ہے لےکن حالی نے جس طرح پہلی مرتبہ باضابطہ طور پر تنقےدی خےالات پےش کئے وہ اُردو مےں کسی نے پےش نہےں کئے تھے اس لئے حالی کی کتاب ”مقدمہ شعر و شاعری“ کو اُردو مےں فن تنقےد کی پہلی کتاب قرار دےا جاتا ہے ۔ حالی کے مخالفےن بھی ان کی تنقےدی بصےرت کے معترف ہےں اور حالی کے بعد جو بھی نقاد وجود مےں آئے اور جو تنقےدی کتا بےں لکھی گئےں ان کا سہرا حالی کے سر جاتا ہے۔
حالی نے مقدمہ شعر و شاعری مےں رواں دلچسپ پر اثر اور مدلّل اسلوب اختےار کےا ہے ان کی تحرےر مےں سادگی ‘ سلاست اور روانی موجود ہے ۔ حالی نے تنقےدی خےالات کے اظہار کےلئے جو سادہ اسلوب اختےار کےا اس سے بھی ان کا مقدمہ مشہور ہوا۔
سوال: حالی نے شعر اور شاعری کی شرطو ں کے بارے میں کن خیالات کا اظہار کیا؟
جواب: حالی کا تعارف: خواجہ الطاف حسین حالی (1837-1914) اُردو کے مشہور شاعر‘انشا پرداز ‘سوانح نگار اور نقاد گذرے ہیں۔غالب کے شاگرد تھے۔ اور سر سید کی اصلاحی تحریک میں حصہ لیا۔ ابتداءمیں قدیم طرز کی غزل گوئی کی۔ بعد میں ادب کی مقصدیت کے قائل ہوئے۔ انہوں نے انجمن پنجاب کے مشاعروں میں نظمیں سناتے ہوئے اُردو نظم گوئی کو فروغ دیا۔ مشہور مسدس” مدو جزر اسلام“1879ءمیں لکھی۔ سوانح نگاری میں آپ کی یاد گار کتابیں”حیات سعدی“1882۔یادگار غالب1897اور حیات جاوید1901۔مشہور ہیں۔ اپنی شاعری کے مجموعے کو ایک طویل مقدمے کے ساتھ شائع کیا۔ جس میں شاعری کے بارے میں اصولی بحثیں کیں۔ بعد میں یہ کتاب ”مقدمہ شعر و شاعری“ کے عنوان سے 1893ءمیں علٰحیدہ شائع ہوئی۔ اس کتاب کو بہت مقبولیت ملی۔ اور یہ کتاب اُردو تنقید کی پہلی باضابطہ کتاب سمجھی جاتی ہے ۔اور حالی کو اُردو کا پہلا نقاد کہا جاتا ہے۔
شعر کی تاثےر :حالی نے لکھا کہ شاعری کی تاثےر سے فائدہ اٹھانا چاہےے شاعری زندگی کو بہتر بنانے مےں مدد گار ہوسکتی ہے اور دنےا مےں اس سے بڑے بڑے کام لئے جاسکتے ہےں۔ اپنے خےال کی تائےد مےں انہوں نے کئی مثالےں پےش کی ہےں۔ قدےم ےونان مےں اےتھنس والوں کو بار بار شکست ہونے لگی تو سولن نے درد انگےز اور ولولہ خےز اشعار پڑھے۔ جس سے اےتھنس والوں کی غےرت جاگ گئی۔ اور انہوں نے اپنے دشمن کو شکست دےدی اےشےاءمےں شاعری سے بڑے اہم اور مفےد کام لئے گئے عرب شاعر اعشیٰ کے تعلق سے ےہ بات مشہور تھی کہ وہ اپنی شاعری مےں جس کسی کی مدح کرتا وہ عزےز و نےک نام ہوجاتا اور جس کی ہجو کرتا وہ ذلےل و خوار ہوجاتا اس نے اےک خاتون کی لڑکےوں کے بارے مےں قصےدہ لکھا تا کہ اُن لڑکےوں کی آسانی سے شادی ہوسکے۔ اعشیٰ کا قصےدہ پڑھ کر بڑے بڑے عرب لوگوں نے ان لڑکےوں سے شادی کرلی۔ اس طرح سے مختلف واقعات سے حالی نے ثابت کےا کہ اچھی شاعری سے تبدےلی اور اصلاح کا کام لےا جاسکتا ہے۔ اس طرح حالی کے ان خےالات کی بہت لوگوں نے سخت مخالفت کی اور کہا کہ شاعری کا کام تو لطف اندوزی ہے۔ لےکن حالی نے جو کچھ کہا تھا وہ وقت کا تقاضہ تھا۔ اس وقت شاعری کا مقصدی ہونا بہت ضروری تھا۔ اس لئے کچھ عرصہ بعد لوگ حالی کے خےالات سے اتفاق کرنے لگے۔ حالی نے شاعری کو سوسائٹی کے تابع قرار دےا اور لکھا کہ سوسائٹی (Society) کا مذاق اچھا ہوتو اچھی شاعری ہوگی ورنہ زمانے کا مزاج دےکھ کر شاعر بھی شاعری مےں مبالغہ آرائی کرنے لگےں گے۔ بری شاعری سے زمانے کا مزاج بگڑے گا اس لئے شاعر اور سماج دونوں کو اپنے مزاج کو سدھارنا ہوگا۔
شعر کی تعرےف:حالی نے اپنے مقدمہ مےں شعر کے بارے مےں مختلف ماہرےن کی تعرےفےں پےش کی ہےں۔ اور لکھا ہےکہ شاعری اےک قسم کی نقالی ہے مصوری اور بت تراشی کی طرح شاعر بھی لفظوں کے ذرےعہ اےک پر اثر خےالی تصوےر پےش کرسکتا ہے۔ اےک محقق کی شعر کی تعرےف پےش کرتے ہوئے حالی لکھتے ہیں کہ” جو خےال اےک غےر معمولی اور نرالے طور لفظوں کے ذرےعہ اس طرح ادا کےا جائے کہ سامع کا دل اس کو سن کر خوش ےا متاثر ہو وہ شعر ہے“۔
شاعری کی تےن شرطےں:     حالی نے اپنے مقدمہ مےں شاعری کےلئے تےن شرطےں (1 تخےل(2 مطالعہ کائنات (3 تفحص الفاظ قراردی ہےں۔
(1 تخےل: تخےل کے بارے مےں حالی نے لکھا کہ انگرےزی مےں اسے (Imagination) کہتے ہےں ےہ اےسی صلاحےت ہے جو مشق سے حاصل نہےں ہوتی بلکہ خداداد ہوتی ہے لےکن اگر کسی مےں ےہ صلاحےت ہوتو اُسے مطالعہ کے ذرےعہ بڑھاےا جاسکتا ہے ۔ حالی نے انگرےزی اور عرب ماہرےن ادب کی تعرےفوں اور اشعار کی مثالوں کے ذرےعہ قوتِ متخےلہ کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔
(2 مطالعہ کائنات : حالی اچھی شاعری کےلئے کائنات کے مطالعہ کو ضروری قرار دےتے ہےں۔ ہر فنکار کےلئے ےہ ضروری ہےکہ وہ خدا کی بنائی ہوئی اس وسےع و عرےض کائنات کا مشاہدہ کرے اور مختلف چےزوں سے متحد اور متحد چےزوں سے مختلف خصوصےتوں کو کائنات سے اخذ کرسکے۔ اور اس مطالعہ کے سرماےہ کو اپنے ےاد کے خزانے مےں رکھے اور وقتِ ضرورت انہےں اپنی شاعری مےں استعمال کرے۔
(3 تفحص الفاظ: حالی کہتے ہےںکہ شاعری کو بہتر بنانے کےلئے کلام مےں اچھے الفاظ استعمال کرنا چاہےے جس طرح اےک مصور اپنی تصوےر کو خوبصورت بنانے کےلئے بہتر رنگوں کا استعمال کرتا ہے اسی طرح شاعر کو بھی سونچ سمجھ کر الفاظ استعمال کرنا چاہےے اور پےش کئے گئے خےالات کو کانٹ چھانٹ کر درست کرناچاہےے اس طرح شاعر کا کام انگو ٹھی مےں نگےنہ جڑنے کا کام ہو جائے۔
شعر کی خوبےاں:حالی شعر کی خوبےاں بیان کرتے ہوئے اس مےں سادگی جوش اور اصلےت کے ہونے پر زور دےتے ہےں۔
(1سادگی :حالی کہتے ہےںکہ شعر کو سادہ اور آسان ہونا چاہےے تاکہ سننے والے اُسے سمجھ سکےں شاعری کا مقصد ترسےل ہوتا ہے اگر شاعر کا پےش کردہ خےال سامع ےا قاری تک نہ پہنچ سکے تو شاعری کا مقصد مکمل نہےں ہو سکتا اس لئے حالی سادگی پر زور دےتے ہےں ۔ وہ کہتے ہیں کہ پیچیدہ خیالات کو بھی عام بول چال کی زبان میں پیش کیا جانا چاہئے۔ ورنہ شعر سادگی کے زیور سے محروم سمجھا جائے گا۔ حالی کہتے ہیں کہ اردو قصیدہ نگاری میں پر شکوہ الفاظ کے استعمال سے قصیدوں کی سادگی متاثر ہوئی ہے۔ وہ غزل اور مثنوی میں بھی سادگی کی حمایت کرتے ہیں۔
جوش : جوش سے حالی کی یہ مراد ہے کہ شعر میں مضمون اےسے بے ساختہ الفاظ اور موثر انداز میں پیش کیا جائے جس سے معلوم ہو کہ شاعر نے اپنے ارادے سے مضمون نہیں باندھا بلکہ خود مضمون نے شاعر کو مجبور کردیا کہ اُسے شعر پیش کیا جائے۔ ایسا شعر پر اثر ہوتا ہے اور سننے والے کے دل پر اثر کرتا ہے۔ جوش سے مراد نہیں کہ مضمون کو جوشیلے الفاظ میں بیان کیا جائے بلکہ دھےمے الفاظ سے بھی چھری اور خنجر کا کام لیا جاسکتا ہے۔ عربی میں جوشیلی شاعری کی مثالیں بہت ملتی ہیں۔
اصلیت :حالی کا خیال ہے کہ اچھے شعر کی بنیاد اصلیت پر ہوتی ہے۔ اگر شعر میں وہ بات بیان کی جائے جس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں تو ایسا شعر جھوٹا خواب بن جائے گا۔ یعنی شاعری میں انسانی عقل اور مشاہدے پر مبنی باتیں بیان کی جانی چاہئے۔ حالی سے قبل اکثر شعراءنے شاعری میں مبالغہ آرائی سے کام لیا تھا تا کہ شعر کی رونق بڑھائی جائے لیکن حالی کے زمانے میں زندگی مسائل سے دوچار تھی اس لئے حالی شاعری میں جھوٹ اور مبالغے سے سخت نفرت کرتے تھے۔
نیچرل شاعری :حالی نے شاعری کو فطرت سے قریب رکھنے کی تلقین کی ہے۔ اور لکھا کہ قدیم دور کے شاعروں میں فطری شاعری زیادہ دکھائی دیتی ہے۔ بعد میں شاعری میں مبالغہ آرائی شامل ہوتی گئی۔ حالی نے اپنے مقدمہ میں الفاظ لفظ اور معنی کا رشتہ اور وزن و قافیہ کی اہمیت بھی اجاگر کی ہے۔
سوال :حالی نے غزل کی اصلاح کے بارے مےں کےا باتےں کہی ہےں؟
جواب:حالی کا تعارف: خواجہ الطاف حسین حالی (1837-1914) اُردو کے مشہور شاعر‘انشا پرداز ‘سوانح نگار اور نقاد گذرے ہیں۔غالب کے شاگرد تھے۔ اور سر سید کی اصلاحی تحریک میں حصہ لیا۔ ابتداءمیں قدیم طرز کی غزل گوئی کی۔ بعد میں ادب کی مقصدیت کے قائل ہوئے۔ انہوں نے انجمن پنجاب کے مشاعروں میں نظمیں سناتے ہوئے اُردو نظم گوئی کو فروغ دیا۔ مشہور مسدس” مدو جزر اسلام“1879ءمیں لکھی۔ سوانح نگاری میں آپ کی یاد گار کتابیں”حیات سعدی“1882۔یادگار غالب1897اور حیات جاوید1901۔مشہور ہیں۔ اپنی شاعری کے مجموعے کو ایک طویل مقدمے کے ساتھ شائع کیا۔ جس میں شاعری کے بارے میں اصولی بحثیں کیں۔ بعد میں یہ کتاب ”مقدمہ شعر و شاعری“ کے عنوان سے 1893ءمیں علٰحیدہ شائع ہوئی۔ اس کتاب کو بہت مقبولیت ملی۔ اور یہ کتاب اُردو تنقید کی پہلی باضابطہ کتاب سمجھی جاتی ہے ۔اور حالی کو اُردو کا پہلا نقاد کہا جاتا ہے۔انہوں نے اپنی تنقید ی کتاب میں اپنے دور کی غزل گوئی پر سخت قسم کے اعتراضات کئے اور اس کی اصلاح کی تجاویز پیش کیں۔
حالی نے جس دور مےں شاعری کی تھی وہ دور سماجی تبدےلی کا دور تھا۔ جاگےر دارانہ نظام کا خاتمہ ہورہا تھا۔ اور زندگی مسائل سے دو چار تھی۔ حالی سے قبل شاہی دور مےں جب چےن و سکون تھا تو شعر و ادب مےں جمالےاتی پہلو کو جگہ دی جاتی تھی۔ ادب مےں زندگی کے مسائل پےش نہےں کئے جاتے تھے۔ حالی نے اپنی شاعری کی ابتداءقدےم طرز کی غزل گوئی سے کی جس مےں عشق کے مضامےن بےان کئے جاتے تھے۔ زمانے کی تبدےلی کو دےکھ کر حالی بے چےن ہوگئے انہوں نے محمد حسےن آزاد کے ساتھ ملکر جدےد شاعری کا آغاز کےا۔ انجمن پنجاب لاہور مےں موضوعاتی نظمےں سنانے لگے غزل مےں مقصدی پہلو کو پےش کےا اور اپنے شعری دےوان کو اےک طوےل مقدمہ کے ساتھ 1879ءمےں شائع کےا۔ اس مےں انہوں نے پہلی مرتبہ اُردو شعر و ادب پر تنقےدی خےالات کا اظہار کےا اور اُردو شاعری کی اصناف مےں تبدےلی پر اپنے خےالات پےش کئے خاص طور پر سے انہےں اُردو غزل قابلِ اصلاح نظر آئی اس لئے انہوں نے غزل کی اصلاح پر زور دےا۔
غزل پر حالی کے اعتراضات:   حالی نے غزل کے بارے مےں کہا کہ اس کی اصلاح تمام اصناف سخن مےں سب سے زےادہ اہم اور ضروری ہے۔ غزل پر حالی نے بہت اعتراضات کئے ہےں اور کہا کہ غزل مےں عشق و عاشقی کے سوا اور کچھ نہےں ےہ عشق بھی فرضی ہے غزل کے مضامےن محدود ہےں اےک ہی بات کو اُلٹ پلٹ کر بےان کےا جاتا ہے ۔ غزل مےں صرف مخصوص الفاظ جےسے شراب ‘ ساقی ‘ جام اور صراحی کا بےان ہوتا ہے۔جن کو پڑھنے سے عام آدمی بھی شراب جیسی برائی کی طرف راغب ہو سکتا ہے۔
غزل کی اصلاح کے بارے مےں حالی کی تجاوےز :               (1 حالی غزل کے بارے مےں کہتے ہےںکہ اس کی بنےاد عشقےہ مضامےن پر رکھی جائے ےہ عشق حقےقی ہو اور ظاہری عشق سے غزل کو دور رکھا جائے غزل مےں ہوس پرستی کی باتےں کرنا اپنے آپ کو اور اُردو شاعری کو رسوا کرنے کے برابر ہے اسی لئے غزل مےں دوستی ‘ محبت کی باتےں‘ روحانی محبت کا اظہار ہو اور کوئی لفظ اےسا استعمال نہ کےا جائے جس سے محبوب کا مرد ےا عورت ہونا ظاہر ہو جےسے ‘ مہندی ‘ چوڑےاں ‘ داڑھی ‘ چوٹی ‘ دستار ‘ قباءوغےرہ چونکہ حالی مذہب اسلام پر پابند تھے۔ اس لئے وہ زور دےکر کہتے ہےںکہ اگر شاعری مےں کسی عورت کا سراپا بےان کردےا جائے تو وہ اےسا ہے جےسے اپنے گھر کی کسی پردہ دار خاتون کو بے پردہ کرنا ہے۔
(2 غزل کے اشعار مےں شعراءنے خمرےات کو جگہ دی ہے اور استعارے کے طور پر شراب‘ ساقی‘ جام‘ صراحی‘ کو بےان کےا ہے ‘ اےران کی شاعری مےں اس طرح کے الفاظ تصوف‘ کے مضامےن بےان کرنے کےلئے استعمال کئے گئے حالی کہتے ہےںکہ شاعری مےں فطری باتےں بےان کی جانی چاہےے اگر کوئی شاعر شراب و شباب کا رسےا ہوتو وہ ےہ الفاظ شاعری مےں بےان کرسکتا ہے ےا شاعری کے فن پر عبور رکھنے والا شاعر ان الفاظ کو استعمال کرے اگر عام شاعر اس طرح کے الفاظ استعمال کرے تو اس کی شاعری پڑھنے والے کو شراب نوشی کی طرف راغب کر ے گی۔
(3 حالی کے زمانے مےں غزل مےں صرف عشقےہ مضامےن بےان کئے جاتے تھے لےکن ان کے زمانے مےں زندگی مسائل سے دو چار ہو رہی تھی اس لئے حالی اس بات پر زور دےتے ہےںکہ غزل مےں عشق کے علاوہ زندگی کے دےگر جذبات جےسے ‘ خوشی ‘ غم ‘ حسرت ‘ ندامت ‘ شکر ‘ شکاےت ‘ صبر‘ قناعت‘ توکل‘ نفرت‘ رحم ‘ انصاف‘ غصہ‘ تعجب‘ امےد‘ شوق‘ انتظار ‘ حب وطن ‘ قومی ہمدردی اور دنےا کی بے ثباتی ‘ موت کاتصور وغےرہ مضامےن کو بھی بےان کےا جانا چاہےے۔ اس طرح حالی نے غزل کے مقصدی پہلو کو اُجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ غزل مےں اصلاحی مضامےن پےش کرنے سے ہوسکتا ہےکہ اشعار کے تاثےر مےں کمی ہو لےکن شاعری کے فن پر عبور رکھنے والا شاعر اس طرح کے مضامےن کو بھی پر اثر انداز مےں پےش کرسکتا ہے۔ اقبال بعد کے دور کے اےسے ہی اےک شاعر گذرے ہےں۔ حالی نے خواب غفلت مےں ڈوبی قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”عشق و عاشقی کی ترنگےں اقبال مندی کے زمانے مےں زےبا تھےں۔ اب وہ وقت گےا۔ عےش و عشرت کی رات گذرگئی اور صبح نمودار ہوئی“۔
(4 حالی طوےل غزلےں لکھنے کی مخالفت کرتے ہےں اور اےک سے زےادہ اشعار مےں اےک ہی موضوع کی تکرار پر بھی اعتراض کرتے ہےں اور کہتے ہےںکہ اےک شعر مےں بات مکمل ہوجائے تو شعر مےں اچھا تاثر شامل ہوجاتا ہے۔ ےہ انسان کی فطرت ہےکہ وہ تبدےلی چاہتا ہے اسی طرح شاعری کے موضوعات مےں بھی تنوع ہونا چاہےے۔
(5 حالی کہتے ہےںکہ غزل کے مضامےن کی طرح غزل کی زبان بھی محدود دکھائی دےتی ہے اور اےک خاص دائرے سے باہر نہےں نکلتی غزل مےں غےر مانوس الفاظ نہےں ادا کرنے چاہےں بلکہ اےسے الفاظ استعمال کئے جائےں جس سے ہر قسم کے خےالات عمدگی کے ساتھ ادا ہوسکےں۔ تشبےہات و استعارے مانوس ہوں محاورے ‘ روز مرہ بول چال سے حاصل کئے جائےں۔ شاعری مےں صنعتوں کے استعمال سے اکثر معنیٰ مےں فرق آجاتا ہے۔ اسی لئے موقع محل کے اعتبار سے صنعتےں استعمال کی جائےں۔

غزل مےں سنگلاخ زمےن (شاعری مےں مشکل طرےقہ اختےار کرنے کو سنگلاخ زمےن کہتے ہےں) استعمال نہ کی جائےں اور نہ شاعری کو مشکل پسند بنایاجائے بلکہ آسان زمےنوں مےں شاعری کی جائے غزل کی اصلاح کے بارے مےں حالی نے جو خےالات پےش کئے ہےں۔ اُس پر ”ادب برائے ادب“ نظرےہ کے حامل شاعروں نے عمل نہےں کےا اور انکے خےالات قبول نہےں کئے جب کہ حالی کے مشوروں پر عمل کرتے ہوئے اُردو شاعری نے ترقی بھی کی ۔ آج اُردو غزل کی جو روش ہے وہ تمام حالی کی بتائی ہوئی ہے اقبال سے لےکر آج تک کوئی بھی قابل ذکر غزل گو شاعر اےسا نہےں گزرا جس نے حالی کی تجاوےز پر عمل کئے بغےر کوئی اہم کارنامہ انجام دےا ہو حالی نے غزل کی تنگ دامنی کو دور کےا۔ اور اس مےں زندگی کے ہر پہلو کو بےان کرنے کی گنجائش نکالی حالی غزل مےں جدت طرازی پر زور دےتے ہےں جس سے فرسودہ مضمون بھی اچھا لگتا ہے ۔
Powered By Blogger