Saturday 30 December 2023

آپ بیتی پل دو پل کی زندگانی ایک جائزہ۔ ڈاکٹر محمد ناظم علی


 

ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کی آپ بیتی "پل دو پل کی زندگانی" ایک مطالعہ.فوزیہ سلطانہ۔ پھولپور۔الہ آباد

 

 

ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کی آپ بیتی "پل دو پل کی زندگانی" ایک مطالعہ

 

فوزیہ سلطانہ۔گڈو

پھولپور۔الہ آباد

سفینہ ادب کے شکریہ کے ساتھ



 

 

 خودنوشت سوانح عمری ہمارے زندگی کے تجربات کی کتاب ہوتی کیوں آج کے دور میں زندگی جینا اور بہترین عملی زندگی جینا بہت مشکل ہوتا جارہا ہے جیسے جیسے زمانہ ترقی کررہا ہے ہمارے لیے صحولیات بڑھتی جارہی زندگی آسان ہونے کے ساتھ ہمارے دور کے مقابلے پہلے کے لوگوں کے پاس کم وسایل ہونے کے باوجود بھی وہ بہت اچھی پرسکون زندگی جیتے تھے ہم سے زیادہ خوشحال رہتے تھے۔ آج کے ڈیجیٹل دور میں تمام وسایل کے باوجود زندگی بہت بے سکون ہے۔ ایک کڑوا سچ"آج کل آن لائن سب کچھ مل جاتا ہے۔ پیار بھی، دوستی بھی،درد بھی،دھوکا بھی۔ زندگی خاموش ہے آن لائن کتنا شور ہے۔ انسان جتنا آنلاین ہوتا جارہا ہے انسانیت اتنی ہی آف لائن ہوتی جارہی ہے۔

ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کی آپ بیتی "پل دو پل کی زندگانی" ان کی پچاس سالہ زندگی کی روداد ہے جس میں انہوں نے کئ عنوان باندھے ہیں اور اس آپ بیتی کا انتساب اپنے والد مرحوم محمد ایوب فاروقی صابٓر والدہ مرحومہ قمر النساء بیگم اور اس آپ بیتی کے ان تمام کرداروں کے نام جن کے فیض تربیت اور ساتھ نے زندگی کے کٹھن راہوں میں سنبھل کر چلنا اور دوسروں کی مدد کرنا سکھایا۔

ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی" کچھ اس آپ بیتی کے بارے میں" جو پیش لفظ سے پہلے ہے لکھتے ہیں۔" پل دو پل کی زندگانی" مجھ ناچیز کی آپ بیتی ہے آپ بیتی تو بڑی شخصیات لکھا کرتی ہیں جن کی زندگی میں کچھ بڑا ہوا ہوں جو دوسروں کو بتایا جا سکے۔

بہرحال اس آپ بیتی میں اردو سے پڑھ کر آگے بڑھے مجھ نا چیز کا فسانہ ہے۔"

پیش لفظ میں ڈاکٹر محمد ناظم علی لکھتے ہیں۔" ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی اردو کے سپاہی ہیں۔ انکی عملی زندگی اردو کے ایسے مجاہد کی طرح ہے جس نے ناکامی نہیں دیکھی اور جہد مسلسل کے ساتھ زندگی کے عملی میدان میں کامیابیاں حاصل کرتے رہے۔"

اس آپ بیتی میں اسلم فاروقی  نے کئ عنوانات قائم کیۓ ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔

*کچھ خاندان کے بارے میں، اسکول کی یادیں، ہائ اسکول، حفظ اور انٹر کی تعلیم، ڈگری اور یونیورسٹی کی تعلیم، شادی خانہ آبادی، ملازمت، والدین کے سایۂ سے دوری، تصنیف تالیف و ترجمہ نگاری، ٹیکنالوجی کے ساتھ سفر، ریڈیو کی دنیا، اردو زبان و ادب سے وابستگی، مزہبی وابستگی اور حج، زندگی کے دیگر رویے جیسے زیلی عنوانات ہیں ۱۳۰ صفحہ پر اب تک کی زندگی کی روداد قلم بند کی ہے۔

یہ روداد خاندان آباؤ اجداد سے شروع ہوتی ہے پردادا اور دادا جان دادی مرحومہ جنہوں نے شوہر کے انتقال کے بعد بھی اپنے سارے بچوں کی بہترین انداز میں پرورش کی تعلیم دی چاچا ، تاؤں پھوپھا، پھوپھی ماما مامی سب کا بہترین انداز میں مفصل بیان ہے اپنے قدیم علاقے کے مناظر اور واقعات بیان کیے جو آنکھوں کے سامنے چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ بھائیوں بہنوں سب کا احوال بیان کیا ہے ایک بہن تقسیم کے بعد پاکستان میں مقیم ہیں اور پورے خاندان کے افراد درس تدریس سے وابستہ ہیں اور بیرون ملک میں بھی فاروقی خاندان نام روشن کررہا ہے اور اسلم فاروقی صاحب لکھتے ہیں۔" خاندان کے بچے سعودی عرب، آسٹریلیا، امریکہ اور کناڈا منتقل ہوگۓ ہیں اس طرح اب ہمارا خاندان دنیا بھر میں منتقل ہوگیا ہے۔"

ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی  کی بسم اللہ شریف کی رسم چار سال چار ماہ چار دن پر ہوئ تھی تب سے پڑھنے اور سیکھنے کا سلسلہ جاری ہے اقتباس پیش نظر ہیں :-

"میری بسم اللہ کی تقریب میں لندن کے ماموں لیاقت علی نے شرکت کی تھی۔اور دعوت میں خاندان کے لوگ جمع ہوۓ تھے۔"

عصری تعلیم کی شروعات نظام آباد کی عظیم و مقبول درس گاہ آغا خان اردو میڈیم اسکول سے شروع ہوئ جو بعد میں گولڈن جوبلی اسکول کہلایا جو اب بھی نظام آباد میں واقع ہے پھر جو علم کا چراغ من میں روشن ہوا وہ مزید روشنی کرتا جارہا یہ علم کی شمع بہت سے گھروں اور طلباء کے لیے مستقبل اجالا دکھا رہی ہے اور مزید زندگیوں کو علم‌ کی روشنی سے روشناس کررہی ہے۔

ہائ اسکول میں علاقے میں پوزیشن حاصل کی اور میٹرک اور حفظ ایک ساتھ مکمل کیا حفظ قرآن کے لیے حیدرآباد سے ہردوئی اترپردیش میں داخلہ لیا اور حفظ کیا بی اے، ایم اے، بی ایڈ، ایم فل اور 2004ء میں حیدرآباد یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی دو سال میں مکمل کی کچھ دن اخبارات میں مترجم کام کیا پھر جونیر لکچرر، لکچرر اور پرنسپل کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ انہیں گولڈن جوبلی اسکول کے ایک استاد نے پیشانی دیکھ کر کہا تھا تم بہت ترقی کروں گے انکی بات سچ ثابت ہوئ۔

انکی شادی عزرا سے ہوئ اور شادی کے بعد جونیئر لکچرر لکچرر کی نوکری ملی اپنے کالج سے میراث میگزین کی بھاگ دوڑ سنبھالی ہے۔ کالج کے پرنسپل ہیں بچیں بھی سب پڑھ رہیں ہیں ایک بیٹا حفظ بھی کررہا بچی چھوٹی ہے پینٹنگ میں مہارت رکھتی والد صاحب 2018 اور والدہ صاحبہ 2021 میں انتقال کرگئ جو ایک خسارہ ہے

"جانے والے کبھی نہیں آتے

جانے والوں کی یاد آتی ہے"

ایم فل کے بعد اخبارات میں ترجمہ نگاری سے لیکر اب تک دس سے گیارہ کتب شائع ہوچکی ہے جن میں۔قوس قزع،مضامین نو، سائنس نامہ،عزیز احمد کی ناول نگاری،برطانیہ میں اردو اور حبیب حیدرآبادی،دریچے،کہکشاں، اردو کی منتخب نظمیں،گلدستہ نقد، ادب و ادیب،اخلاقیاتی اور انسانی قدریں، اردو اکیڈمی سے شائع ہوتی رہی ان شاء اللہ آگے بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا اکثر مضامیں اردو کے بڑے رسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ ٹکنالوجی کا بھرپور استمعال بھی انہیں بہت اچھے سے آتا ہے جسکا وہ بخوبی استعمال کرتے ہیں۔ انکے سفر حج جو انہوں نے 2008میں کیا اسکی روداد بھی اس آپ بیتی میں درج ہے "مذہبی وابستگی اور حج" عنوان سے اور  ہمیشہ مطالعے میں مشغول رہتے ہیں۔ ادب کے سپاہی کی طرح درس تدریس میں مشغول رہتے ہیں۔ اردو کا ایک طالب علم ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی اپنی آپ بیتی میں رقم طراز ہیں۔"آج زندگی کی نصف صدی کی تکمیل کے بعد جب ماضی پر نظر ڈالتا ہوں تو اندازہ ہوتا ہے کہ مادری زبان اردو ہی میرا اوڑھنا بچھونا رہی۔اردو سے پہلی جماعت سے پی ایچ ڈی تک تعلیم اردو سے روزگار سے جڑنے اور بہ طور اردو پنڈت پھر جونیئر و ڈگری لکچرر اردو کی ملازمت اور اردو کے استاد کا گورنمنٹ ڈگری کالج کا پرنسپل بن جانا یہ میرے لیے اردو زبان کی طرف سے ملنے والے اعزازات سے کم نہیں۔"

یہ اقتباس ہم اردو کے طالب علموں کو یہ بتاتے ہیں کی اردو کو کتنا بھی ختم کرنے کی کوشش کی جاۓ وہ ختم نہیں ہوگی وہ اپنے دم سے زندہ ہے اردو کو جتنا ڈجیٹل کیا جاۓ مفید ہے  اسے زیادہ سے زیادہ ڈجیٹل کرنا چاہیے اردو زبانوں کی زبان ہے اس میں بھرپور روزگار ہیں بس اردو کے طلباء مایوس نا ہوں اور اپنی اسکلز کو مذید نکھارے۔ اردو کے ساتھ انگلش، ہندی دیگر زبانوں پر بھی مہارت حاصل کریں۔ ہر امتحان کے مطابق سلیبس کو اچھے سے پورا پیٹرن پر غور و فکر کریں محنت کریں۔آپ جس کے لیے بھی کوشش کرتے ہیں۔آخر وہ آپ کو ملتا ہی ہے۔ اللہ کریم قرآن میں بھی ارشاد فرماتا ہے۔ "تم جس کی سعی کرتے ہو وہی تمہیں ملتا ہے" یہ آپ بیتی پل دو پل کی زندگانی" کے مطالعے کے بعد یہ بات مجھ پر عیاں ہوئ زندگی میں پریشانیاں آتی ہیں ہم اپنے خواب سے ہٹ جاتے ہیں پر پھر اس خواب کو دوبارہ کیسے جینا ہے اور اپنے خواب کو مقدر کیسے بنانا یہ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی صاحب کی پچاس سالہ زندگی کے نشیب وفراز کی روداد ہے اس میں ہمیں کہیں نا کہیں اپنی کہانی بھی دکھتی اور ہم اردو طلباء کو ہمت دیتی ہمیں کیسے اپنے عزم کو مضبوط کرکے لڑنا ہے ان شاء اللہ کامیابی ہمارے بھی قدم بوس ہوگی۔

آپ بیتی میں جو نثر استمعال کیا گیا ہے وہ بہت سہل ممتنع ہے کہیں بھی بوجھل پن نہیں بیانیہ بہت خوبصورت ہے۔ انکی  ساری کتابوں کی طرح "پل دو پل کی زندگانی" بھی اچھی تصنیف ہے ثابت ہوتی ہے۔ قابل مطالعہ ہے۔ اردو ادب کے قاری کو اس آپ بیتی کا ایک مرتبہ ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔

 

 

فوزیہ سلطانہ۔گڈو

پھولپور۔الہ آباد

 

سفینہ ادب کے شکریہ کے ساتھ

آپ بیتی ” پل دو پل کی زندگانی “کا تنقیدی جائزہ ۔ ڈاکٹر عشرت لطیف گورنمنٹ ڈگری کالج ظہیر آباد۔ Auto Biography by Dr Aslam Faroqui

 

پل دو پل کی زندگانیکا تنقیدی جائزہ

A Critical Review of the Life of Moment Two Moments

 

Dr. IshrathLateef

Govt. Degree College, Urdu    lecturer -ishrathsultana618@gmail.com


Zaheerabad. Telangana- 502220.

 

 

ABSTRACT

 


This paper explores a critical review of Dr. Mohammed Aslam Faroqui's autobiography “Pal do Pal ki Zindagani (Aap Beeti),"A Critical Review of the Life of Moment,two Moments’which encapsulates his journey and is a testament to his progression through learning and immersion in Urdu. His memoir not only shares personal growth but also aims to inspire and educate others. This autobiography serves as a beacon for Urdu enthusiasts, offering motivation for poets and authors to chronicle their own lives. Through his narrative, Faroquiextends a hand of guidance, imparting wisdom gained from a life steeped in the beauty and richness of the Urdu language and encouraging others to follow suit in preserving and celebrating its legacy. He stands as a captivating testament to his unparalleled contributions and multifaceted persona within the rich tapestry of Urdu literature, journalism, academia, research, and critique. Rooted in the cultural vibrancy of Hyderabad, India, Faroqui'smemoir intricately weaves together the narrative threads of his life, illuminating his unwavering commitment to nurturing Urdu through innovative platforms like social media and its fusion with the realm of information technology. Faroqui's memoir meticulously chronicles his pioneering endeavours in leveraging the power of social media to propagate Urdu. It eloquently captures his vision to bridge the gap between tradition and modernity, highlighting his relentless efforts to make Urdu accessible to a broader audience, transcending geographical boundaries, and embracing the digital age. Within the pages of his autobiography, Faroqui navigates through the intricate facets of his literary, journalistic, and academic journey. He offers profound insights into the transformative role of his writings in universities, college syllabi, video lectures, Urdu newspapers, and periodicals, elucidating how his educational pieces resonated deeply with readers, enriching their understanding of Urdu's elegance and significance. Furthermore, the autobiography serves as a lens into Faroqui's scholarly pursuits, unveiling the depth of his research and critical analysis within the realm of Urdu literature and culture. It critiques and reflects upon his contributions, offering a comprehensive evaluation of his impact and legacy in the sphere of Urdu scholarship. In essence, his autobiography serves as an engrossing narrative, intricately detailing his unwavering dedication to Urdu and its evolution in the digital era. It encapsulates his pioneering spirit, scholarly acumen, and profound commitment, solidifying his stature as a luminary in the realm of Urdu language and culture.

 

Keywords:  Aslam Faroqui, autobiography, history.

 

*****

پل دو پل کی زندگانیآپ بیتی

مصنف: ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی

مبصر:ڈاکٹر عشرت لطیف ظہیر آباد تلنگانہ

یورپ  میں آپ بیتی لکھنے کا رواج بہت قدیم ہے۔ اردو میں زمانہ حال تک کی آپ بیتیوں میں مولانا جعفر تھانیسری کی کالا پانی ، حسرت موہانی کی قید فرنگ ، مرزا فرحت اللہ بیگ کی یاد ایام عشرت فانی ، مولانا عبدالمجید سالک کی سرگزشت ، رشید احمد صدیقی کی آشفتہ بیانی میری ، دیوان سنگھ مفتون کی ناقابل فراموش ، قدرت اللہ شہاب کی شہاب نامہ ، جوش ملیح آبادی کی یادوں کی بارات ، احسان دانش کی جہان دانش اور مرزا ادیب کی مٹی کا دیا شامل ہیں ۔ان معتبر سوانح میں  ایک اور نام محمد اسلم فارقی  کی آپ بیتی' پل دو پل کی زندگانی' کا  ہو سکتا ہے۔

  ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی حیدرآباد دکن سے تعلق رکھنے والے اردو ادب کی نئی نسل کے ادیب اور استاد اردو ہیں۔ انہوں نے  اردو کو جدید ٹیکنالوجی سے جوڑتے ہوئے  انٹرنیٹ پر اردو زبان و ادب کوفروغ دیا ہے۔ اپنے تخلیقات مختلف ادبی رسائل‘اخبارات ‘ویب پورٹلس اور اپنے بلاگ پرشائع کرتے کرتے ہیں۔  ان کی اب تک بارہ(12) کتابیں زیور طباعت سے آراستہ ہوکر شائع ہوچکی ہیں جن  میں" مضامین ِ نو(ادبی،تہذیبی و معلوماتی  مضامین)"، سائنس نامہ( اردو میں سائنسی مضامین کا مجموعہ)" قوسِ  قزح(معلوماتی ، ادبی اصلاحی مضامین)،"اردو کی منتخب نظمیں ایک مطالعہ"،"کہکشاں( ادبی ، تہذیبی، معلوماتی مضامین)،"دریچے(تحقیقی و تنقیدی مضامین) اور" برطانیہ مین اُردو اور حبیبؔ حیدرآبادی"  جیسے اہم تحقیقی و تنقیدی  مضامین پر مبنی  کتابیں  شامل  ہیں۔  ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی نے اپنی آپ بیتی پل دو پل کی زندگانی میں اپنی زندگی کی پچاس سالہ یادوں کو دلچسپ انداز میں پیش کیا ہے۔جس کا سرسری جائزہ پیش ہے۔

'کچھ اس آپ  بیتی کے بارے  میں'

ڈاکٹر محمد ناظم علی نے اس آپ بیتی کا پیش لفظ لکھا ہے وہ لکھتے ہیں" جس طرح ماضی میں اردو کے ادیب آل احمد سرور نے اپنی آپ بیتی' خواب باقی ہیں' اور مشہور شاعر جوش ملیح آبادی نے اپنی آپ بیتی'یادوں کی برات' پیش کی اور ادب کی دنیا میں مقبول ہوئے اردو کے شعرا اور ادیب بھی ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کی طرح پہل کرتے ہوئے اپنی زندگی کے حالات کتابی شکل  میں سوانح انداز میں محفوظ کرتے جائیں  تو  اردو ادب پر بڑا احسان ہوگا۔" ان کا اعتراف بالکل درست ہے چوں کہ  اس صنف کے ذریعے  سوانح نگار  خود  کی زندگانی  پر بھی غور و فکر کرتا ہے اور اچھی باتوں کو اپناتا ہے اور غلطیوں کو ترک  کرتا ہے۔ایک اچھی آپ بیتی درس  کام کرتی ہے۔یہ سماج کا آئینہ  بھی ہے پیغام بھی ہے۔اسی کی عکاسی فارقی کی آپ بیتی    میں نظر آتی ہے۔

'کچھ اپنے خاندان کے بارے میں'

اس باب میں ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کے خاندان سے  متعلق جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان ایک معاشرتی جان دار ہے، جو کسی بھی معاشرے یا خاندان کا حصّہ بنے بغیر خوش حال زندگی نہیں گزار سکتا۔ جس طرح ایک انسان بچپن سے موت تک مختلف مراحل طے کرتا ہے، اِسی طرح ایک خاندان بھی آغاز سے تکمیل تک کئی مراحل طے کرتا ہے۔ نیز، ہر مرحلے کی کامیاب تکمیل نہ صرف خاندانی نظام کی مضبوطی و خوش حالی کا باعث بنتی ہے، بلکہ خاندان کے تمام افراد کو اعتماد میں لینے اور آنے والے حالات کا بہتر انداز میں سامنا کرنے کا حوصلہ بھی بخشتی ہے۔ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوتے ہی خاندانی نظام کا آغاز ہوجاتا ہے، تو میاں بیوی کا رشتہ خاندان کی بنیاد تصوّر کیا جاتا ہے، جس پر پھر پورے نظام کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ یہ بنیاد جس قدر پائیدار ہوگی، عمارت بھی اُتنی ہی مضبوط ہوگی، اسی لیے معاشرتی اور خاندانی نظام میں میاں بیوی کا رشتہ خاص اہمیت کا حامل ہے۔ شادی کے بعد ہماری عادات اور خیالات میں کئی تبدیلیاں رُونما ہوتی ہیں۔ فارقی صاحب  کی  شادی سے قبل سوچ کا مرکز صرف اپنی ذات پر محیط  تھا ، مگر بعد میں مستقبل کی پیش بندی یہ سوچ  بدل گئی  اب مَیں تنہا نہیں، بلکہ کوئی دوسرا بھی مجھ سے وابستہ ہے اور آنے والے وقت میں کچھ دیگر افرادبھی میری زندگی میں شامل ہوجائیں گے۔مثلاً ایک دوسرے کی عادات سمجھنا، اپنی ناپسندیدہ عادات کی اصلاح، ایک دوسرے کی رائے اور پسند، ناپسند کا احترام، ایک دوسرے کے خاندان سےعزّت و احترام سے پیش آنا، معاشی مشکلات مل جُل کر حل کرنا اور ایک دوسرے پر مکمل اعتماد۔ فارقی کا خیال ہے    میاں بیوی کے باہمی تعلقات کے اثرات آگے چل کر خاندانی زندگی کے اچھے یا بُرے ہونے کا تعیّن کرتے ہیں۔ ان  کا  وہ والدین سے  متعلق  خیا ل ہے کہ بچّے کی اچھی نشوونما کے لیے مثبت ماحول ضروری ہے،کیوں کہ گھر کا ماحول اور والدین کا رویّہ ہی بچّے کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتّب کرتے ہیں۔ والدین کے علاوہ دیگر بزرگوں، بہن بھائیوں اور رشتے داروں سے کیسا سلوک رکھنا ہے، کس سے کس انداز میں بات کرنی ہے، کس سے ادب و احترام اور کس سے شفقت و محبّت کا رشتہ ہے، یہ سب باتیں ایک بچّہ عُمر کےاسی حصّے میں سیکھتا ہے۔

 

اگر ہم ذہن سازی کی بنیاد ہی ٹیڑھی رکھیں گے، تو عمارت سیدھی نظر آنے کی توقع رکھنا بھی غلط ہے۔ گھر کی چار دیواری کے بعد اگلی منزل مدرسہ یا اسکول ہے۔اولاد کے برسرِ روزگار ہونے اور شادی بیاہ کے بعد خاندان کی تکمیل کے بعد ایک سے زائد خاندان آپس میں جُڑجاتے ہیں۔ اگرچہ ہمارے معاشرے میں یہ ایک اہم اور خوش گوار مرحلہ تصوّر کیا جاتا ہے، لیکن کئی مسائل کا آغاز بھی یہیں سے ہوتا ہے، لہٰذا اس مرحلے کا بھی خوش اسلوبی سے طے ہونا ضروری ہے۔ بیٹے کی شادی کے بعد خاندان میں بننے والے نئے رشتوں کو تین کونوں والی مثلث سے تشبیہ دی جاسکتی ہے، جس کے ایک کونے پر بیٹا، دوسرے پر بہو اور تیسرے پر والدین اور بہن بھائی براجمان ہوتے ہیں۔    اولاد کی شادی کے بعد خاندان میں شامل ہونے والے داماد اور بہوئیں بھی اب اس خاندان کا حصّہ ہیں، انہیں پرایا اور غیر سمجھنا انتہائی نامناسب  سمجھتے ہیں۔ اسی طرح نئے آنے والوں کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ پہلے سے موجود افراد کی جگہ ان کے آنے سے ختم ہوئی ہے، نہ ہی کم۔ وہ اپنی حیثیت میں وہاں موجود ہیں اور ان کی عزّت و احترام بھی واجب ہے۔  فارقی کے خیال میں  ہر کنبے کے سربراہ کو ایک نہ ایک دِن عملی زندگی سے دست بردار ہونا پڑتا ہے۔ جس خاندان کی بنیاد اُس کی شادی سے رکھی گئی تھی، اب بچّوں کی شادیوں اور ان کی اولاد کے بعد وہ کئی اور خاندانوں میں بٹ چُکا ہے، لیکن کنبے کے سربراہ کا کام ابھی ختم نہیں ہوا، کیوں کہ جب تک وہ زندہ ہے، اپنے تجربے کی بنیاد پر وہ اپنے بچّوں اور بچّوں کے بچّوں کی تربیت و رہنمائی کا فریضہ انجام دے سکتا ہے اس کا اعتراف فارقی  اس طرح بتایا ہے:

  والد صاحب اور ان کے ماموں کی زبانی اکثر سنا  کرتا تھا کہ نظام دور حکومت میں ریاست حیدرآباد میں ہر طرف خوشحالی تھی۔ نظام سرکار سکہ حالی چلتا  تھا۔ جس میں آنے  روپیہ ہو ا کرتے تھے۔ ۔۔ لیکن جس طرح ہندوستان کی تحریک آزادی زوروں پر تھی اور قیام پاکستان کی بات چل رہی تھی۔  اسی طرح نظام ی ریاست کو بھی  ہندوستان میں شامل کرنے کی تحریک عام تھی۔نظام کی طرف سے رضا کاروں نے جدوجہد کی تھی کہ مسلمانوں کی یادگار یہ عظیم ریاست باقی رہے  ۔۔۔سردار ولبھ بھائی پٹیل نے آپریشن پولو کرتے ہوئے 1948ء  میں ریاست حیدرآباد کو طاقت کے زور پر  ہندوستان میں شامل کردیا تھا۔۔۔اضلاع  میں تلنگانہ تحریک کے عنوان سے مسلمانوں کے خلاف جذبات بھڑکائے گئے۔ والد صاحب  کہا کرتے تھے کہ آزادی کے  فوری بعد مسلمانوں کے لیے سرکاری ملازمتوں کے دروازے بالکل  بند تھے۔

موصف نے جس طرح اپنی یاداشت کے ذریعے آزادی  کی کسمپرسی کا نقشہ کھینچا ہے ۔ اسی طرح کے تاریخی واقعات   کو  جگہ جگہ رقم کیا ہے۔کس طرح  ملک آزادی کے ساتھ  ہی تلنگانہ ریاست  میں مذہب کے  نام پر مسلمانوں کے ساتھ زیادتی کی گئی ؟ اور کس طرح  ذات پات  کو بڑھاوا دیا جانے لگا کتاب کے  مطالعے سے  معلوم ہوگا۔انھوں نے اپنی' اسکول کی یادیں'  کے باب  میں کچھ اس طرح  بیان کی ہے۔" ایک  دفعہ میلا د النبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے موقع پر ایس آئی او کی جانب سے تحریری مقابلے  منعقد ہوئے تھے۔ جبار صاحب نے مجھ سے کہا  کہ میں تلگو  میں لکھوں ۔انہوں نے ایک مضمون تلگو  میں لکھ کر دیا جب پہلی دفعہ مجھے معلوم ہوا کہ تلگو میں پیغمبر کو پراوکتا  کہا جاتا ہے۔حضور اکرم کے بچپن کے واقعات پر مبنی یہ مضمون  میں نے تلگو میں لکھاتھا تو مجھے تیسرا انعام  ملا تھا۔ اس سے  یہ   ثابت ہوتا ہے  کہ یہ آپ بیتی حقائق  کی عکاسی کرتی ہے ۔ جس طرح آپ نے حضور کی شخصیت پر اسکول  کے ذمہ  میں مضمون لکھ کر داد و تحسین  حاصل کی ہے وہ ایک  ایمان والا ہی کر سکتا ہے ۔  ان واقعات کی روشنی میں    دیکھا جائے تو کتاب کی اہمیت   بڑھ جاتی  ہے  ۔

                ' حفظ اور انٹر کی تعلیم'

  اس باب میں فارقی کی قرآن مجید کی اہمیت و افادیت پر ان کا خیال  ہے   حفاظ کی عظمت و رفعت اور ان کے مقام بلند  ہے، اللہ تعالیٰ نے کس قدر واضح اور دو ٹوک انداز اور الفاظ میں یہ اعلان کیا ہے کہ’’انا نحن نزلنا الذکر و انا لہ لحافظون‘‘ اس نصیحت نامہ اور کتاب ہدایت یعنی قرآن کو ہم نے ہاں ہم نے ہی نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ و نگہبان ہیں۔ اور بارگاہ ربانی کی اس عطا کی کوئی حد ہے کہ جو صفت اللہ نے اپنے لئے مخصوص رکھی تھی، اسے بندہ کو بھی نواز دیا،یعنی اللہ حافظ الذکر یعنی قرآن کے محافظ و نگہبان ہیں تو بندہ کو توفیق بخش دی کہ وہ تیس پاروں کو حفظ کرکے حافظ قرآن کا مبارک و مسعود لقب حاصل کرنے  کی اہمیت و افادیت  کا اظہار کیا ہے۔ وہ اپنے گھر والوں کے  یہاں عظمت قران کے حوالے  سے لکھتے ہیں " گھر کے لوگوں  کو یہ بات معلوم تھی کہ حافظ قرآن کا بڑا رتبہ ہوتا ہے۔۔۔ میرے حق میں فیصلہ ہوا کہ مجھے عرفان صاحب کے مدرسے میں حفظ کی تعلیم کے لیے داخل کرایا جائے۔۔۔ پھولانگ کی مدینہ مسجد  میں حفظ قرآن کے پہلے درس کے لیے بٹھادیا گیا۔۔۔ اساتذہ کی زیر نگرانی صبح اور شام میری حفظ کی تعلیم چلتی رہی اور ہائی اسکول کی تعلیم بھی۔۔۔ ایس ایس سی کے بعد جب میں حیدرآباد منتقل ہوا اور انٹر  میڈیٹ کی تعلیم مکمل  ہوئی تو  ملے پلی میں قیام کے سبب میں نے ملے پلی مسجد کے شعبہ حفظ  میں کچھ عرصہ تعلیم حاصل کی۔۔۔مسجد اور محلے  میں اچھا ماحول تھا ۔ جس کے سبب حیدرآباد  میں  کالج کے ایام  میں میرا اچھا اور یادگار وقت گزرا۔" ان اقتباسات سے  بھی  معلوم ہوتا ہے  فارقی نے کس طرح اپنے بچپن کے کورے کاغذ پر قرآنِ کریم  چھاپ دی۔جس کی برکت سے    تعلیم و تربیت   میں برکت ہوئی۔ چوں کہ اسلام میں دینی اور دنیاوی تعلیم کی تفریق نہیں ہے۔ فارقی نےاپنے بڑوں کی مرضی پر ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں عصری تعلیم اسکول ، کالج  اور کمپیوٹر  کی مدد سے حاصل کی ۔ منجملہ  انھوں نے پل دو پل کی زندگانی   کے ذریعے  معاشرے    کی اصلاح  کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔  ان کے خیال میں جس طرح مسلم قوم کو عالم دین، مفتی، قاضی کی ضرورت ہے اسی طرح، ڈاکٹرس، انجینئرس، وکیل، سول سرونٹ، سائنس داں، اساتذہ اور پروفیسرس وغیرہ کی بھی  ضرورت ہے تاکہ وہ مسلمانوں کے خلا کو پرسکیں۔  ہم مدرسے کے لوگ ہیں، ایک کے بدلے دسیوں مدرسے قائم کرسکتے ہیں لیکن عصری ادارے ہمارے لئے قائم کرنا مشکل ہے۔ اس سمت میں قدم بڑھانے  کی ضرورت ہے اور آج  دینی تعلیم کے ساتھ  عصری تعلیم بھی ضروری ہے۔ ہمارے لوگ ہر میدان میں اسی وقت اپنا قدم جما سکتے ہیں جب ان کی اسکول کی تعلیم معیاری ہو تو وہ کہیں بھی داخلہ لے سکتے ہیں اور کہیں سے بھی کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ اس کی بہترین مثال خود محمد اسلم فارقی ہے  مدرسے  سے یونیورسٹی  ان کا سفر کامیاب رہا ہے۔

' ڈگری اور یونی ورسٹی کی تعلیم'

اس باب کے خلاصےسے  معلوم ہوتا ہے  تعلیم ایک فرد کو ڈیفائن کرنے میں اور  سماج کو بنانے میں مرکزی کرداراداکرتی ہے۔ایک فرد کو ذاتی پہچان دینےمیں،ایک پیشہ وارانہ سماج میں انفرادی طور پر اپنا کریئر بنانےمیں اور سماج میں اپنے کردار کو پہچاننے میں تعلیم کی اہمیت کلیدی ہے۔جدید معاشرہ علم پر مبنی معاشرہ بن گیا ہے، جسے ‘نالج اکانومی’ کہا جانے لگا ہے۔ ٹیکنالوجیکل ترقی کے اس دور میں سماج کے ہر شعبہ میں تعلیم پر مبنی ترقی ہورہی ہے۔ سروس سیکٹر میں نالج پر مبنی انڈسٹریز قائم ہو چکی ہیں۔  معیشت  کو بھی اب ‘نالج بیسڈاکانومی’ کہا جاتاہے۔جس کے پاس جتنی بہترتعلیم ہوگی، اس کی معیشت بھی اتنی بہترين ہوگی۔انفرادی طور پر بھی  دیکھا جائے توعلم کا حصول صرف ایک فرد کے کرئیر کے حوالے ہی  سے نہیں، بلکہ کمیونٹی کے ساتھ جمہوری تعامل میں، صحت کے مختلف زاویوں اور معیار زندگی غرض زندگی کے سارے پہلووں میں کلیدی  حیثیت رکھتا ہے۔    بالخصوص مسلمانوں کی اعلىٰ تعلیم کے حوالےسے  یہ ایک تاريخی حقیقت ہے کہ مسلمان ہندوستان میں دوسری اقوام  کے بالقابل بہت زیادہ پیچھے ہیں۔  سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق  تعلیمی سطح اور معیار دونوں کے حوالے سے مسلمانوں کی صورتحال کافی خراب ہے۔ اس کے باوجود فارقی  نے  اپنے   تعلیمی سفر  کی کامیابی کا کے چند ثبوت  اس طرح پیش کیے ہیں ' کتابوں اور اخبارات کے مطالعے اور سماجی علوم اور اردو زبان  میں مہارت کی پیش نظر میں نے عثمانیہ یونیورسٹی کے اورینٹل کالج واقع وجئے نگر کالونی  میں داخلہ لیا۔۔۔ڈگری کامیاب کرنے کے بعد انھوں نے بی ایڈ میں اچھے رینک سے کامیابی حاصل کی۔ اور ایم اے او ایم فل    کے بعد انھوں نے پروفیسر انورالدین صاحب کی نگرانی میں  پی ایچ ۔ ڈی مکمل کی۔ اس باب میں اپنی تعلیمی سفر کا مختصر قصہ  بیان کیا ہے۔

' شادی خانہ آبادی'

اس باب میں انھوں نے  اپنی نجی زندگانی  پر تبصرہ کچھ اس طرح کی ہے۔' سعیدہ چاچی نے نے میرے والد  سے کہا کہ آپ کی  ہونے والی بہو نہایت خوبصورت بااخلاق اور شاعری کی دلدادہ ہے۔۔۔15 نومبرسنہ 1996ء کو میری شادی  طے ہوئی۔ ۔۔ نکاح کی تقریب مہدی پٹنم کی مسجد  میں ہوئی۔ قریب میں  واقع کمیونیٹی ہال   میں دوست احباب کے لیے چائے بسکٹ کا نظم رکھا گیا۔' اس  سے ثابت ہوتا ہے  جس طرح ان کی زبان و بیان سہل ہے اسی طرح ان کی نجی زندگی  بھی۔انھوں نے اپنے کردار سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ  شادی ہو یا تعلیم    شریعت کی روشنی میں  کی۔ انھوں نے   شادی سے متعلق  "حیدرآباد تہذیب  و معاشرت کے آئینے ' مضمون میں لکھا ہے:

یوں تو مذہبی اعتبار سے مسلمانوں کے ہاں شادی بیاہ کے موقع پر زیادہ رسومات رائج نہیں شادی طے ہوجانے پر دو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول کے بعد نکاح کی رسم انجام دی جاتی ہے شادی کے دوسرے یا تیسرے دن دلہا شکرانے کے طور پر اپنی استطاعت کے مطابق دعوت ولیمہ کا اہتمام کرتا ہے۔ لیکن دولت کی فراوانی اور رسومات کے چکر میں حیدرآبادی شادیوں میں بھی کئی رسومات داخل ہوتی گئیں۔ شاہی گھرانوں سے یہ رسومات طبقہ امراءمیں اور پھر آہستہ آہستہ متوسط طبقہ میں آگئیں۔ شاہی گھرانوں میں یہ رسومات مغل شہنشاہ اکبر کے دور میں ہندں سے مسلم گھرانوں میں داخل ہوئیں۔ اکبر نے اپنی سلطنت کو وسعت دینے اور مقبول بنانے کی خاطر ہندں کی مختلف رسومات کو دربار میں شروع کیا اسی زمانے میں حیدرآباد میں محمد قلی قطب شاہ کی حکمرانی تھی اس نے بھی رواداری کی خاطر بہت سی رسومات اپنائیں۔ اور یہ رسومات دربار سے نکل کر عوام تک پہنچیں۔[1]

اس اقتباس  سے معلوم ہوتا ہے ان کی زندگی   مذہب سے وابستہ  ہے۔  انھوں نے زندگی  کہ ہر پہلو میں دین  کو فوقیت دی ہے۔ یہ  انھوں نے اپنے آبا و اجداد سے   سیکھا  ہے اس   ثبوت ہمیں   ان کی زندگی ہر گوشے میں نمایاں نظر آتا ہے۔

'ملازمت'

 اس   باب میں انھوں نے    اس طرح شکر ادا کیا" میری ساری تعلیم اردو میڈیم سے رہی ۔ جیسا کہ کہا گیا کہ بی اے کے بعد یونیورسٹی آف حیدرآباد سے ایم اے ایم فل اور پی ایچ۔ ڈی تک تعلیم رہی۔اللہ کی ذات سے یہی امید تھی کہ اچھی ملازمت مل جائے۔ الگ الگ شعبوں میں   ملازمت کے  تجربات  کے بعد ' 20 اگسٹ 1998ء کا دن تھا جب میں نے جونیر لیکچر اردو کی گزیٹیڈ آفیسر والی نوکری رجوع کی۔۔۔ سر زمین ناگرکرنول پر اتر تے ہی عافیت کی دعا مانگی کہ پتہ نہیں کتنے سال اس گاؤں میں رہنا پڑے ۔  بس اسٹیشن سے کالج  کا پتہ پوچھ  کر کالج پہنچا۔ والد صاحب  نے پہلے ہی جوائننگ  رپورٹ انگریزی  میں لکھوادی تھی۔ کالج میں پرنسپل کے چیمبر میں  مسٹر وکرامار کانے خیر مقدم کیا۔ جوائننگ رپورٹ  دینے کے بعد رجسٹر میں دستخط ہوئی۔' فارقی صاحب  کی صاف گوئی  کا کیا کہنا انھوں نے جس سادگی سے جوائننگ لیٹر والد سے لکھا لائے  تھے اس کا اعتراف فخر سے کیا ہے  اس طرح  کی سوانح عمری سے حقائق  کا پتہ چلتا ہے ۔

                'والدین کے سایہ  سے دوری ایک عظیم ورثے سے محرومی'

اس باب میں فارقی نے  یہ بتایا ہے کہ والدین انسان کے وجود کا ذریعہ ہیں۔ اﷲتعالیٰ نے اپنی توحید کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔ والدین میں ماں کا درجہ باپ پر مقدم ہے۔ کیوں کہ پیدائش میں ماں نے زیادہ تکلیفیں برداشت کی ہیں۔ ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے۔ فارقی نے  اس باب میں  بتایا ہےجب بچہ پیدا ہو تا ہے تو اب اس کی پرورش کے لیے باپ محنت و مشقت برداشت کر تا ہے ، سردی ہو یا گر می ،صحت ہو یا بیما ری، وہ اپنی اولاد کی خاطر کسبِ معا ش کی صعوبتوں کو برداشت کر تا ہے ۔کما ئی خرچ کرتا ہے ، ماں گھر کے اندر بچے کی پرورش کرتی ہے ،اس کو دودھ پلاتی ہے، اس کو گرمی و سردی سے بچانے کی خاطر خود گرمی و سردی برداشت کرتی ہے ،بچہ بیما ر ہوتا ہے تو ماں باپ بے چین ہو جا تے ہیں ، ان کی نیندیں حرام ہو جاتیں ہیں، اس کے علاج و معالجہ کی خا طر ڈاکٹروں کے چکر لگاتے ہیں ۔ غرض والدیناپنی راحت و آرام کو بچوں کی خاطر قربان کر تے ہیں۔اس لیے اللہ تعالی نے جہاں اپنا شکر ادا کر نے کا حکم دیا ہے وہیں والدین کی شکرگزاری کا بھی حکم ارشاد فر مایا ہے ،سو رة لقمان میں اللہ تعالی فرماتے ہیںکہ میرا شکر یہ ادا کرو اور اپنے والدین کا شکریہ ادا کرو، میری طرف لوٹ کر آنا ہے۔اس کا اعتراف فارقی  نے پل دو پل کی زندگانی  میں  اس طرح کیا ہے:

" والد محترم نے  اپنی عمر  عزیز کی 85 بہاریں دیکھیں اور بھر پور زندگی گزارکر  اس دار فانی سے  کوچ  کیا۔ یہ ہماری خوش بختی رہی کہ ہم  نے انہیں بھر پور مثالی زندگی گزارتے  دیکھا اور ان کی تربیت اور اخلاقی وراثت کے امین ہونے پر ہیں فخر ہے اور ہم اللہ سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں علم و ادب کا بیش قیمت سرمایہ  ملے۔ اس لحاظ میں  میں خوش نصیب ہوں کہ مجھے اپنے  والد  محترم جناب محمد ایوب فارقی صابر سے اردو ادب کی وراثت ملی اور  میں اسے پروان  چڑھانے اور شمع سے شمع جلتی ہے کہ مصداق دوسروں تک پہنونچانے میں لگا ہوں۔یادوں کا سرمایہ اس کی زندگی کا عظیم سرمایہ ہوتا ہے اور شعور کی منزل تک پہونچنے کے بعد سے اب تک میرے والد  سے سنی باتوں اور ان سے سیکھے علم و ادب کا سرمایہ میرے لیے بے حد قیمتی ہے میں اسے پیش کرتے ہوئے فخر   محسوس  کرتاہوں۔"(ص88)

اس اقتباس سے ثابت ہوتا ہے ان کے دل میں والد  کی عظمت،عزت و وقار  رتبہ کتنا بلند تھا۔ ان کے  اعتراف سے معلوم ہوتا ہے وہ اپنےوالد سےکتنی محبت کرتے تھے۔ بے شک  والدین  کی خدمت و ا حترام سے د نیا اورآخرت میں کامیابی ملتی ہے۔والدین اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے اورباپ سچے جذبے اور صادق رشتے کا نام ہے،جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ بقول معراج فیض آبادی :

ہمیں پڑھاؤ نہ رشتوں کی کوئی اور کتاب

پڑھی ہے باپ کے چہرے کی جھریاں ہم نے

والدین کی عظمت سے کوئی بھی انسان، دین، مذہب، قوم اور فرقہ انکار نہیں کر سکتا۔والدین کا رشتہ ہر غرض بناوٹ اور ہر طرح کے تقاضے سے پاک ہوتاہے۔اولاد کے لئے والدین کی حیثیت ایک سائبان کی طرح ہوتی ہے۔ جہاں انھوں نے والد  کا ذکر کیا ہے وہیں والدہ   کا بھی ذکر کیا اور لکھا کہ والد صاحب کے انتقال کے بعد  سے ہی  والدہ محترمہ قمر النساء بیگم کی طبعیت بھی خراب رہنے لگی تھی۔ ۔۔ اس سے قبل ہی ان کی والدہ  کی یادداشت کم  ہونے لگی  اس کیفیت کا اظہار اس طرح کیا ۔" زندگی بھر خاندان اور گھر کی خدمت کرنے والی خاتون چولہا کھلا رکھ کر بھول جانے لگی  دودھ ابل گیا تو  سالن جل گیا۔  " موصوف  اپنی ماں  کی قربانیوں کا ذکر  کرنا بھی ضروری سمجھا۔  چوں کہ ماں شفقت ، خلوص ، بے لوث محبت اور قربانی کا دوسرا نام ہے ۔بقول منور رانا:

یہ سوچ کے ماں باپ کی خدمت میں لگا ہوں

اس پیڑ کا سایا مرے بچوں کو ملے گا

 ماں دُنیا کا وہ پیارا لفظ ہے جس کو سوچتے ہی ایک محبت ، ٹھنڈک ، پیار اور سکون کا احساس ہوتا ہے ۔ اس کا سایہ ہمارے لئے ٹھنڈی چھاوں کی مانند ہے ۔ چلچلاتی دھوپ میں اس کا دستِ شفقت شجرِسایہ دار کی طرح سائبان بن کر اولاد کو سکون کا احساس دلاتا ہے ۔ اس کی گرم گود سردی کااحساس نہیں ہونے دیتی ۔ خود بے شک کانٹوں پر چلتی رہے ، مگر اولاد کو ہمیشہ پھولوں کے بستر پر سلاتی ہے اور دُنیا جہاں کے دکھوں کو اپنے آنچل میں سمیٹے لبوں پر مسکراہٹ سجائے رواں دواں رہتی ہے اِس سے زیادہ محبت کرنے والی ہستی دُنیا میں پیدا نہیں ہوئی۔ فارقی نے   والدہ  کی امورخانہ داری  کا آخری منظر  بھی اسی لیے پیش کیا ہے کہ  ماں نہ ہی کبھی احسان جتاتی ہے اور نہ ہی اپنی محبتوں کا صلہ مانگتی ہے بلکہ بے غرض ہو کر اپنی محبت اولاد پر نچھاورکرتی رہتی ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ ماں کی محبت ایک بحر بیکراں کی طرح ہے ۔ ماں کی بے پایاں محبت کو لفظوں میں نہیں پُرویا جا سکتا ۔بقول ساجد جاوید ساجد:

گھر کی اس بار مکمل میں تلاشی لوں گا

غم چھپا کر مرے ماں باپ کہاں رکھتے تھے

خلوص و ایثار کے اس سمندر کی حدود کا اندازہ لگانا ممکن نہیں ، ہر مذہب اور ہر تہذیب نے ماں کو عظیم اور مقدس قرار دیا ہے ۔ ماں ایک دُعا ہے جو ہر وقت ربّ رحیم کے آگے دامن پھیلائے رکھتی ہے اور قدم قدم پر اُن کی حفاظت کرتی ہے  بقول سرفراز نواز:

باپ زینہ ہے جو لے جاتا ہے اونچائی تک

ماں دعا ہے جو سدا سایہ فگن رہتی ہے

' تصنیف و تالیف و ترجمہ نگاری'

 اس باب  میں  آپ نےجن تصنیفات میں  اپنے دلی اجتہاد کے موافق  تحریرکیا ہے۔ اورتالیف کے ذریعے دِل کے خیالات کو  اپنے رنگ میں ظاہر   منظر کشی کی ہے۔ ثبوت میں  ان کا اقتباس ' مضامین لکھنے میں میری کوشش یہی ہوتی ہے کہ  موضوع سے متعلق باتیں آسانی سے سمجھ میں آجائیں۔ ایک ادیب جب بہت لکھتا ہے تو لوگ کہتے  ہیں کہ اس کا ایک خاص اسلوب بن جاتا ہے اب اردو  کے قارئین ہی یہ بتا پائیں گے کہ  میرا سلوب کس قسم کا ہے اور اس کی شناخت کیا ہے؟' ۔ ان سوالات کا جواب    موصوف  کی  کتب بینی  کی روشنی میں    یہ کہا جا سکتا ہے   نثر لکھنا غزل کہنے سے زیادہ مشکل ہے۔ کیوں کہ غزل میں قافیہ و ردیف کے سہارے خوش آہنگی پیدا ہوہی جاتی ہے اور ہر شعر کا کچھ نہ کچھ مطلب نکالا ہی جا سکتا ہے جب کہ نثر وضاحت اور منطقی جواز سے عبارت ہوتی ہے۔ ایک شعر کے کئی معنی نکالے جا سکتے ہیں یہی سبب ہے کہ غالب کے کلام کی شرحیں آج تک لکھی جا رہی ہیں مگر نثر کے ہر جملے کا عموماً ایک ہی متعین مطلب ہوتا ہے۔ ذو معنویت دراصل زبان کا حسن ہے۔ یہ کہنے اور سننے یا لکھنے اور پڑھنے والے کی خوش ذوقی کا غماز ہوتا ہے۔ فقرہ بازی کا یہی تو مزہ ہے کہ بات دل پر اثر ضرور کرے مگر دل نہ توڑے۔ یہ ہنر زبان و بیان پر دسترس سے آتا ہے۔

اچھی نثر کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ یہ صرف Data Collection  نہیں ہوتی، معلومات بہم پہنچانا صحافت کا کام ہے۔ ادب میں معلومات فراہم کرتے ہوئے ادیب کو بھی داخل رہنا چاہیے۔ ادب و صحافت میں یہی تو فرق ہے۔ شاعری میں بعض شاعروں نے اپنا منفرد اسلوب بنا لیا ہے جیسے علامہ اقبال، جوش، میر و غالب، انیس، امجد وغیرہ۔ اگر کوئی شاعر ان کی پیروی کرتا ہے تو گویا ان کے اسلوب میں خود کو گم کر دیتا ہے۔ اسی طرح نثر میں منشی پریم چند، کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، مولانا ابوالکلام آزاد کا خاص اسلوب ہے۔ ان کے رنگ میں اگر کوئی لکھتا ہے تو اس کی اپنی پہچان قائم نہیں ہو پاتی۔ ان تمام  باتوں  کا علم فارقی صاحب کو ہے اسی لیے انھوں نے   اپنی روش عوامی  اور سہل انداز میں بات رکھنے  کو ترجی دی ہے۔ وہی انھوں نے  بحیثیت ایک مترجم کے  اپنی اثبات کا لوہا منوایا ہے۔ ان کے خیال میں انسانی دنیا کی دوسری ترقی یافتہ زبانوں کی طرح اردو  بھی دوسری زبانوں کی اہم تخلیقات کے تراجم کی روایت خاصی پرانی ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ اب خاصی پختہ ہو چکی ہے۔ اردو میں عموماً دو قسم کے تراجم رائج رہے ہیں، لفظی ترجمہ اور آزاد ترجمہ۔ لفظی ترجمہ کی عدم افادیت اور پزیرائی نہ ہونے کی بنا پر یہ اب تقریباً متروک ہو چکا ہے۔  اس  کا ذکر انھوں نے ' تصنیف و تالیف و ترجمہ نگاری' باب میں کیا ہے ۔

' ٹیکنالوجی کے ساتھ سفر'

 اس باب  میں انھوں نے  جدید سائبر ٹیکنالوجی سے استفادہ کر کے کم وقت  میں اردو زبان و ادب کو فروغ دیا ہے۔  اور اردو کو ٹیکنالوجی سے جوڑ نے کی بہترین سبیل پیش کی ہے ۔فارقی صاحب نے اپنے مضامین کے ذریعے اکثر بتایا ہے کہ کمپیوٹر،ویب سائٹ، انٹرنیٹ پر اردو میں تحقیق کے بنیادی آلات، کتابیات سازی ، لغات ، اشاریے ، تحقیقی جائزے ، رپورٹیں ، ادبی متون ، اصول و قواعد ، مختلف ذخیرہ ہائے الفاظ ، تحقیقی مسلیں،فائلیں ، پتے ، عنوانات وغیرہ موجود  ہیں۔  اُردو کے محقّقین کو ان میں سر کھپانے اور کتب خانوں کی گرد جھاڑنے کی ضرورت بہت کم ہوگی۔ بنیادی کوائف اور ذخائر کمپیوٹر پر آ جانے سے کاغذی کتاب کا رواج بھی کم ہو جائے گا ۔ سیاہی، قلم کی جگہ ماؤس ، کلیدی تختے اور نوری قلم کو مل جائے گی۔ طلبا کی کاپی کی جگہ کمپیوٹر نوٹ بُک ہوگی اور کتاب ،رسالے کی جگہ ای بُک اور انٹرنیٹ کو حاصل  ہے۔ فارقی نے  ٹیکنالوجی کے ساتھ سفر میں      اپنے خیال کا اظہار  کیا ہےٹیکنالوجی سے  اردو زبان  و ادب  کے لیے رحمت ثابت ہورہی ہے۔ پہلے جو لوگ سرکاری، سیاسیی یا مذہبی دباؤ میں اردو نہیں سیکھ پاتے تھے یا اردو سیکھنے سے گریز کرتے تھے۔ وہ اب آن لائن میڈیم کے سہارے بڑی تعداد میں اردو سیکھ رہے ہیں۔ اب تو فیس بک، ٹویٹر اور واٹس ایپ جیسے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز پر اردو کے چاہنے والوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ یہاں کوئی رسمی دیوار نہیں ہے، اس لیے لوگ بلا خوف اپنے اور غیروں کے بیانات ایک دوسرے سے شیئر کر  سکتے ہیں۔

 فارقی  نے جدید ٹیکنالوجی  کے سفر میں یہ  ثبوت دیا   ہے زمانہ بدلتا ہے تو زمانے کی ترجیحات بدل جاتی ہیں، جس کا اثر انسانی مسائل اور ادراک پر راست ہوتا ہے۔ اردو زبان  و ادب بھی ان تبدیلیوں سے متاثر ہوئی۔ اردو تنقید کی طرح اردو تحقیق بھی مثبت اور منفی تبدیلیوں سے ہمکنار ہوئی ہے۔ پہلے تحقیقی کام کی رفتار نہایت سست تھی کہ ایک زمانے تک ولی دکنی کو اردو کا پہلا شاعر سمجھا گیا۔ قلی قطب شاہ کے دیوان کی دستیابی نے اسے یکسر بدل کر رکھ دیا۔ آج کل تحقیق کا کام جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ کیا جارہا ہے۔اب سے پہلے بڑے ادیبوں کے یہاں بھی بمشکل ایک آدھ لغت دیکھنے کو ملتی تھی۔ آج کسی لفظ کا املا یعنی، معنی، مترادف، متضاد، مشتق، مصدر یا دنیا کی کسی بھی زبان میں مشینی ترجمہ آسانی سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اردو سے اردو ہی نہیں بلکہ انگریزی، ہندی، عربی اور فارسی میں کئی لغات موجود ہیں۔ یہ لغات بطور ایپس  دستیاب ہیں۔جدید ٹیکنالوجی کے زمانے میں ایس ایم ایس ، ای میل واٹس ایپ ، فیس بک  اور ٹویٹر وغیرہ کے لیے سوائے انگریزی زبان کے دنیا کی دیگر زبانوں کی طرح اردو والے بھی رومن رسم الخط میں ہی اپنی تحریریں رقم کرتے تھے۔ البتہ اب دیگرزبانوں کی طرح اردو بھی کمپیوٹر اور موبائل فونوغیرہ پر اردو صوتیاتی تختہ کلیدی  کی مدد سے یونی کوڈ میں اردو لکھنے کی سہولت حاصل ہوچکی ہے۔ اس کے علاوہ اسمارٹ فون  پر اب اردو میں بھی وائس ٹائپنگکی سہولت سے اردو صحافت اور تصنیف و تالیف کے کام میں برق رفتار تیزی آ گئی ہے

 جہاں تک آن لائن ترجمہ کا سوال ہے دنیا کی ہر بڑی زبان کا اردو میں اور اردو کا دنیا کی ہر بڑی زبان میں ترجمہ کرنا ممکن ہے۔ البتہ اس ترجمے کا معیار وہ نہیں ہے جس کے ہم خواہاں ہیں۔ اس راہ میں حائل تکنیکی مشکلات بہت جلد دور ہونے والی ہیں۔اسی لیےاردو  والے بھی تمام جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے  دوسری بڑی زبانوں کے  برابر اپنی تصنیف و تالیف  اور ترجمہ نگاری وغیرہ آسانی سے کرسکتے ہیں۔ اس ضمن میں  فارقی صاحب  کہتے  ہیں:

 اب  اے آئی یعنی آرٹی فیشیل انٹلجنس کا زمانہ ہے چاٹ جی پی ٹی  کو کیسے ہم تعلیم  میں استعمال کر سکتے ہیں اور گوگل  ترجمے کی مدد سے کیسے ہم  کار آمد مواد کا اپنی زبان  میں ترجمہ  کر سکتے  ہیں یہ سب  باتیں ٹیکنالوجی کے ساتھ  سفر کا حصہ ہیں۔ کمپیوٹر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کو اپنے فائدے کے لیے استعمال  کرنا یہ وقت  کی اہم ضرورت ہے اس کے علاوہ  بھی زندگی کو آسان بنانے کے لیے ہمارے گھروں  میں اور بازار کی زندگی میں دستیاب ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کے لیے سیکھنا ضروری ہے۔ آج آن لائن کی مدد سے گھر پر چیزیں  منگائی جارہی ہیں۔آن لائن کی رقم  کی منتقلی ہو رہی ہے اور انٹر نیٹ پر اپنی معلومات گوگل اور لنکڈان پر محفوظ کی جا رہی ہیں یہ سب باتیں ٹیکنالوجی کا حصہ ہیں اگر ہم نہیں سیکھیں گے تو ہم خود پیچھے رہ جائیں  گے ۔

 فارقی کے خیال میں ٹیکنالوجی کے اثرات اردو زبان و ادب پر نہایت ہی خیر اندیش رہے ہیں۔ جن کی مادری زبان اردو ہے، اردو کے تعلق سے ان کے حوصلے اور بلند ہو گئے ہیں۔اردو جن کی نہ تو مادری زبان ہے اور نہ ہی روزی روٹی اور نوکری پیشہ کا سبب ہے، ایسے غیر اردو داں لوگ اردو کی غزلیں، قوالیاں، مشاعرے، فلمیں، نغمے اور گیت کی محفلوں وغیرہ سے لگاؤ کے سبب اردو سے محبت رکھنے والوں میں شامل ہو گئے ہیں۔ فارقی کہتے  ہیں جدید ٹیکنالوجی کے اثرات سے اردو زبان و ادب کا مستقبل روشن ہے۔ فاروقی  نے     ثبوت  دیا ہے   کس طرح جدید ٹیکنالوجی نے مخطوطات اور حوالہ جاتی کتابوں تک رسائی کو نہایت ہی آسان بنا دیا ہے۔سخت محنت اور ریاضت کرنے میں ٹیکنالوجی کی مدد سے  محقیقین کے لیے نئے دریچے کھلتے ہیں اور کچھ نئے گوشے منظر عام پر آرہے ہیں۔ٹیکنالوجی کے سبب گھر بیٹھے ہر طرح کے ہر موضوع کے مخطوطات، کتابیں اور رسائل پڑھے جاسکتے ہیں۔ انٹرنیٹ نے پوری دنیا میں ڈیجیٹل انقلاب پیدا کردیا ہے۔جہاں انھوں نے  جدید ٹیکنالوجی  کی بات کی ہیں وہیں  ریڈیو کی دنیا  سے بھی بہ خبر کیا ہے۔

'ریڈیو کی دنیا'

ایک وقت تھا کہ عوام ریڈیو سے خبریں یا دیگر پروگرامز سن کر اپنے اہل خانہ کا تلفظ‘ ادائیگی اور لب و لہجہ درست کرنے کی کوشش کرتے تھے کیونکہ اس دور کے براڈ کاسٹرز‘ میزبان اور نیوز کاسٹرز پروگراموں میں کام کرنے اور پروڈیوس کرنے والے سب ہی زبان و بیان کا خیال ضرور رکھتے تھے۔ ان میں اگر زیڈ اے بخاری‘ سید سلیم گیلانی‘ شکیل احمد‘ امین بٹ‘ موہنی حمید‘ اظہار کاظمی‘ مصطفی علی ہمدانی‘ سید رضی ترمذی‘ نسرین انجم بھٹی‘ زاہدہ سلطانہ‘ ابصار عبدالعلی‘ احمد ندیم قاسمی‘ صوفی تبسم‘ ثریا شہاب‘ اظہر لودھی‘ لئیق احمد اور سید محمد وجیہ السیماءعرفانی کا نام شامل نہ کیا جائے تو سراسر زیادتی ہو گی۔ یہ وہ ہستیاں تھیں جنہوں نے ایک ایک فقرہ اس کے بہترین اسلوب کے ساتھ بیان کرنے میں نہ صرف اردو لغت کے استعمال کو یقینی بنایا بلکہ صداکاروں کا (ش ق) شین قاف بھی صحیح کروایا جبکہ آج اس تربیت کا رواج ناپید ہو چکا ہے۔

ریڈیو خبروں، تعلیم، تفریح اور اطلاعات کا ایک موثر اور قابل بھروسہ ذریعہ ہے۔ یہ وہ واحد ذریعہ مواصلات اور رابطہ ہے، جس سے نابینا افراد بھی اُسی طرح لطف اندوز اور باخبر ہوسکتے ہیں جس طرح بینا افراد۔ ریڈیو کی اہمیت کے پیش نظر ہر سال یونیسکو کی جانب سے 13 فروری کو ”ریڈیو کا عالمی دن“ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ فارقی صاحب  ریڈو کی دنیا  کے  حوالے سے  لکھتے ہیں:

"والد صاحب اور بھائی بہنوں کو کرکٹ میچوں کی ریڈیو کمنٹری سننے کا بہت شوق تھا۔اور یہی شوق ریڈیو کے ساتھ میرےبچپن کے سفر کا حصہ رہا۔ پہلے زمانے میں برقی کے بڑے ریڈیو ہوا کرتے تھے معلوم ہوا کہ حکومت ریڈیو لائسنس دیا کرتی تھی اور اس کی فیس لیا کرتی تھی اگر فیس ادا نہ کی جائے تو جرمانہ عائد ہوگا اس لیے پلنگ کے نیچے ریڈیو کو بلینکٹ میں لپیٹ کر رکھتے ہوئے دیکھا۔ برقی ریڈیو کے لیے لوہے کی جالی کا ائریل ہوا کرتا تھا جو اوپر روشن دان تک لگایا جاتا تھا جس سے ریڈیوکے پروگرام واضح سنے جاسکتے تھے۔ بیسیوں صدی کی آخری دو تین دہائیوں میں دنیا بھر کی معلومات اور تفریح کا اہم ذریعہ ریڈیو ہوا کرتا تھا۔ سیل سے چلنے والے ریڈیو کو ٹرانسسٹر کہا جاتا تھا جس میں بش ریڈیو‘فلپس ریڈیو اور ہمارے گھر میں موجود مرفی ریڈیو مشہور تھے۔ مرفی ریڈیو پر ایک چھوٹے بچے کی تصویر لگی ہوتی تھے جس میں ایک خوبصورت بچہ منہ میں انگوٹھا دبائے مسکراتا نظر آتا تھا معلوم ہوا کہ کمپنی کے گھرانے سے اس بچے کا تعلق تھا جس کا بچپن میں انتقال ہوگیا۔ سیل والے ریڈیو کی خاص بات تھی کہ اسے کہیں بھی لے جایا جاسکتا تھا لیکن اس کے زیادہ استعمال سیل جلدی ختم ہوجایا کرتے تھے اویر ریڈی اور نیشنل کے سیل مشہور تھے چار سیل والا ریڈیو تھا جس کے استعمال کے لیے ہم بھائی بہنوں میں جھگڑے ہوا کرتے تھے والد صاحب جب گھر پر رہیں وہ کرکٹ کمنٹری اور خبریں سنا کرتے تھے۔ ریڈیو کی جانکاری رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ ریڈیو فریکوینسی دو قسم کی ہوا کرتی تھی شارٹ ویو اور میڈیم ویو۔ میڈیم ویو پر ریاستی اور قومی پروگرام سنے جاتے تھے۔ حیدرآباد سے آل انڈیا ریڈیو کے پروگرام نشر ہوتے تھے۔ شام میں پانچ بج کر پچاس منٹ کی دس منٹ کی اردو خبریں کافی مقبول تھیں۔ پانچ پچاس پر ہم ریڈیو کھولے اردو خبریں سنتے تھے جس میں کہا جاتا تھا کہ یہ آکاش وانی ہے اب آپ نوید اختر سے علاقائی خبریں سنئے۔ حیدرآباد سے نشر ہونے والی ان خبروں میں تازہ ترین حالات نشر ہوتے تھے خاص طور پر کرفیو کے زمانے کی خبریں دلچسپی سے سنی جاتی تھیں۔ میڈیم ویو پر ہر گھنٹے آکاش وانی آل انڈیا ریڈیو سے انگریزی اور ہندی خبریں نشر ہوا کرتی تھیں صبح آٹھ بجے اور شام میں ساڑھے آٹھ اور نو بجے ہندی اور انگریزی خبریں نشر ہوا کرتی تھیں۔ رات میں میڈیم ویو کے پروگرام واضح سنے جاتے تھے نظام آباد میں قیام کے دوران صبح اورنگ آباد سے نشر ہونے والا اردو پروگرام انجمن بھی کافی دلچسپی سے سنا جاتا تھا۔ رات ساڑھے آٹھ بجے ریڈیو پاکستان کی خبریں بھی سننے میں آتی تھیں۔کبھی سعودی ریڈیو سے حرم شریف کی اذان سنائی دے تو دل خوش ہوجاتا تھا کہ ہمیں گھر بیٹھے حرم شریف کی اذان سننے کا موقع ملا۔ شارٹ ویو کے پروگرام دنیا بھر سے نشر ہوا کرتے تھے اکثر ہم کسی ملک کے ریڈیو اناؤنسر سے سنا کرتھے کہ ہم شارٹ ویو انیس بچیس اکتیس اور اکتسالیس میٹر بینڈ پر آپ سے مخاطب ہیں۔ اس زمانے میں ریڈیو سیلون اور بی بی سی ریڈیو سروس کافی مقبول تھی۔ ریڈیو سیلون سے ہندوستان کے فلمی گیتوں کے پروگرام صبح اور شام نشر ہو ا کرتے تھے صبح ساڑھے سات تا آٹھ بجے پرانے فلمی گیتوں کا اختتام سہگل کے گانے سے ہوا کرتا تھا۔جب بھی آدھا گھنٹہ یا ایک گھنٹہ ہو اناؤنسر کہتا کہ یہ ریڈیو سیلون ہے صبح کے آٹھ بجنے والے ہیں۔ کہا جاتا تھا کہ لوگ اپنی گھڑیوں کا وقت ریڈیو سیلون کے پروگرام سے ملایا کرتے تھے اس وقت ہاتھ پر جو گھڑی باندھی جاتی تھی اسے کنجی دینا پڑتا تھا۔ ریڈیو سیلون سے ہر چہارشنبہ بناکا گیت مالا فلمی گیتوں کا مقبول عام پروگرام رات آٹھ بجے تا نو بجے نشر ہوا کرتا تھا جس میں مشہور اناؤنسر امین سایانی کییہ آواز اس وقت کے سبھی لوگ جانتے ہیں کہ بہنو اور بھائیو بناکا گیت مالا کی پائیدان نمبر ایک پر پیش ہے یہ نغمہ۔ [2]

 فارقی  کی ' ریڈیو کی دنیا '  پر غور  کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اردو میں ریڈیائی ادب کی  بھی  ایک اچھی روایت ہے۔ جس میں ادبی پروگراموں کا ایک وسیع ذخیرہ ہے۔  ہندستان میں ریڈیو کے ابتدائی دور میں کس طرح ہمارے بزرگ ادیبوں نے اس نئے میڈیم کو زبان کے حوالے سے ایک مخصوص معیار تک پہنچایا، اور ساتھ ساتھ ریڈیو کے توسط سے اردو ادب کے دامن کو عظیم تخلیقات سے نوازا۔ انھوں نے ادب میں نئے نئے تجربے کیے۔ چونکہ ریڈیو کے لیے عام فہم اور سادہ زبان کو مناسب قرار دیا گیا، اس لیے اردو ادیبوں نے عام فہم اور سادہ زبان میں نئی نئی تخلیقات پیش کیں، جس سے ایک نیا اسلوب ابھر کر سامنے آیا۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ریڈیو کا اردو سے بہت ہی گہرا رشتہ رہا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو آگے بڑھانے اور پروان چڑھانے میں معاون رہے ہیں۔ ریڈیو نے جہاں اردو زبان کے الفاظ کو اپنا کر ایک طرف خود کوزندگی کی حرارت دی ہے، وہیں دوسری طرف اس نے زبان کے حسن سے لوگوں کو آشنا بھی کیا ہے۔ جہاں ریڈیو نے اردو کے حسین الفاظ اور اس کے اسلوب کا سہارا لے کر دور دراز تک رسائی حاصل کی، وہیں اس نے ان خطوں اور علاقوں میں بھی اردو کے الفاظ کو رائج کیا جو اردو کے علاقے نہیں تھے۔

'اردو زبان و ادب سے وابستگی'

 فارقی کی اردو سے وابستگی  اردو زبان ہماری مادری زبان ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کی ممتاز ترین زبانوں میں سے ایک خاص مقام رکھنے والی زبان ہے، یہی وجہ ہے کہ اردو زبان کو دنیا کی تیسری بڑی زبان کا درجہ ملا ہے اور اس میں تقریباً تین لاکھ الفاظ ہیں، اور یہ اردو زبان اتنی پیاری اور میٹھی ہے کہ مختلف مذاہب،مختلف طبقہ اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد اپنی روز مرہ کی زندگی میں اسے استعمال کرتے ہیں، باوجود اسکے آج یہ تعصب کی زد میںآکر اپنا وجود اپنی شناخت کھوتی جارہی ہے، اور ہندوستان میں کل تک جس اردو زبان کو چھٹا مقام حاصل تھا آج وہ گر کر ساتویں مقام پہ پہنچ گئی ہے، ان حالات میں اگر دوبارہ اردو زبان کے فروغ و ترقی، اسکا کھویا ہوا وقار اور اسکی ساکھ برقرار رکھنی ہے تو ہم طلبہ کو کمربستہ ہوکر زمینی سطح پہ اپنا کردار ادا کرنا ہوگا،  اپنی تعلیم کو عملی جامہ پہناتے ہوئے متحدالخیال ہوکر اسکو ہر میدان میں نکھارنے اس کی بقا کے لئے جی توڑ کوشش کرنی ہوگی، جس کے لئے اردو تعلیم کو محض رسمی تعلیم سمجھ کر رٹنے کے بجائے اس کے ہر لفظ کی گہرائی اس میں بسی مٹھاس، اپناپن، ادب و احترام کو سمجھ کر محسوس کرنا ہوگا، جب تک ہم طلبہ اردو سے دلی محبت نہیں کرینگے اس کی ترقی ناممکن ہے، آج اردو ہماری مادری زبان ہونے کے باوجود ہم اس سے سوتیلا رویہ اختیار کررہے ہیں، دیگر زبانوں کے مقابلے اسکو اتنی فوقیت نہیں دے رہے ہیں جسکی وہ اصل حقدار ہے۔ اس  کا اعتراف  فارقی  نے اس طرح کیا  ہے:

آج زندگی کی نصف صدی کی تکمیل کے بعد جب ماضی پر نظر ڈالتا ہوں تو اندازہ  ہوتا ہے کہ مادری زبان اردو ہی میرا اوٹھنا بچھونا رہی ۔ اردو سے  پہلی جماعت سے پی ایچ۔ڈی تک تعلیم اردو  سے روزگار سے جڑنے اور بہ طور اردو پنڈت پھر جونیر و ڈگری  لیکچرر اردو  کی ملازمت اور اردو کے استاد کا گورنمنٹ ڈگری کالج کا پرنسپل بن جانا  یہ میرے لیے اردو زبان کی طرف سے  ملنے والے اعزازات سم کم نہیں ۔

 اس ضمن میں  پنڈت جواہر لال نہرو کا قول ہے، " اگر کسی بھی قوم کو ختم کرنا ہو تو سب سے پہلے اسکی مادری زبان کو اس سے چھین لو، پھر وہ قوم خود بہ خود ختم ہوجائی گی،،  آج اردو کو مٹانےکی اور ہماری زندگی سے چھیننے کی سازش کی جارہی ہے، کہیں اردو مدرسوں پہ تالا لگاکر تو کہیں اردو پہ دیگر زبانوں کو اہمیت دیکر، اس سے اردو زبان رفتہ رفتہ فنا ہوتی جائے گی جو ملک و ملت کے لئے عظیم خسارہ ہوگا۔" فاروقی   کی اردو زبان و ادب سے   وابستگی  کا جا ئزہ لینے  معلوم ہوتا ہے ۔ ان کی بنیادی فکر  اردو داں طبقہ سے ہے کہ اردو ‏مدارس اور کتب خانوں کا قیام، سرکاری اور غیرسرکاری مدارس میں اردو کی شرکت، موجودہ نصاب اردو کی اصلاح، اردو کی انجمنوں کا قائم ‏کرنا اور ایسے اردو اخباروں اور رسالوں کا اجراجو سلیس زبان میں زمانۂ حال کے حالات اور واقعات کواس طرح سنجیدگی اور صفائی سے پیش ‏کریں کہ ہر پڑھا لکھا شخص سمجھ سکے اور مستفید ہو سکے۔ وہ اپنی رائے میں بے لاگ ہوں اور انصاف کو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ ‏جس طرح انھوں نے اردو  زبان   سے ترقی کی ہے  ان سے بہتر  اردو کے ذریعے   کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔

مذہبی وابستگی اور سفر حج

میرؔ کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ان نے تو

قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا

میر تقی میر یہ  خیال مذہبی  وابستگی کا مطلب قدیم روایت سے جڑے رہنا ہے۔مذہب سے وابستگی، اس کا مذہب سے لگاؤ اور رغبت کا نام ہے۔ قطع نظر اس کے کہ کسی مذہب میں عقیدہ اور عام زندگی کے بیچ باہمی ربط کی وکالت کی گئی ہے یا نہیں، مذہبی جذبہ عام انسان کی زندگی میں اثر انداز ہو جاتا ہے۔ حالاں کہ ملازمت یا ذریعہ معاش مذہب سے جداگانہ ہیں۔ ایک مذہبی مزاج   مذہب کے منافی پیشہ نہیں اختیار کرے گا۔ فارقی کے خیال   میں  مذہب اخلاقیات کی بھی اپنی تعلیم دیتا ہے۔ بقول فراق گورکھپوری:

مذہب کی خرابی ہے نہ اخلاق کی پستی

دنیا کے مصائب کا سبب اور ہی کچھ ہے

مسلمان  کایہ عقیدہ  ہوتا  ہے کہ اعمال کی مناسبت سے لوگ جنت اور دوزخ میں داخل ہوں گے۔ لہٰذا بد دیانتی اور بے ایمانی غلط ہے۔ مذہبی وابستگی پر علامہ اقبال نے ایک بہت ہی اہم سوال شکوہ اور جواب شکوہ  میں اٹھایا  تھا ۔ اس سوال کو انھوں نے اپنے آخری خطبات کے دیباچے میں  بیان کیا:

’قرآن پاک وہ کتاب ہے جو فکر کی بجائے عمل پر زور دیتی ہے۔ہر انسان کے لیےیہ ممکن نہیں کہ اپنے باہر کی اجنبی کائنات کو اپنے وجود کا حصہ بنا کر ایسی روحانی قوت کے بل بوتے پر اس باطنی تجربے کو پھر سے زندگی کا حصہ بنا سکے جو ایمان کا دارو مدار ہے۔ مزید برآں جدید دور کے انسان نے ٹھوس فکر کی عادت اپنا لی ہے جس کی وجہ سے اس میں اس قسم کے تجربے کی اہلیت بہت کم رہ گئی ہے۔حالانکہ یہ ایسی عادت ہے جسے اسلام نے اپنی ثقافت کے اولیں دور میںخود پروان چڑھایا تھا۔ اب وہ اس ٹھوس فکر کا اتنا عادی ہوگیا ہے کہ اس باطنی تجربے کیاہلیت بھی باقی نہیں رہی۔ بلکہ وہ اس تجربے کو ہی شک کی نظر سے دیکھتا ہے کیونکہ اس میں التباس یا وہم کی گنجائش باقی رہتی ہے‘۔

اقبال کی مذہبی  وابستگی   کی جھلکیاں  فاروقی کی آپ بیتی  میں صاف نظر آتی ہیں۔ انھوں نے بھی ایمان کو ضمیر کی آواز بنائے  رکھنے کے لیے غورو فکر کی دعوت اور نظر و تدبرکی ضرورت پر زور دیا ہے۔ معاشرت کو بھی  دینی وابستگی کے اصول پر قائم   رکھنے کا ہنر  ۔ اختلاف رائے کا احترام کرتے ہوئے معاشرے کی وحدت کو  کس طرح برقرار رکھنا  چاہیے  فارقی نے دکھایا ہے۔ اس احتیاط کا نتیجہ یہ نکلتا ہے  کہ اچھے دنوں میں بھی دینی وابستگی ہمارا فریضہ ہے۔  فارقی نے    جہاں مذہبی وابستگی کا ثبوت دیا ہے  وہیں  انھوں نے عصر حاضر میں دین اور جدیدیت کے مابین تصادم  پر ہونے والے مضر اثرات  کا بھی جائزہ لیا ہے جیسے دین کے تصور کو اتنا مبہم ا ور مشکوک بنا دیا ہے کہ ما بعد جدیدیت بھی اس وابستگی کو بے مقصد اور اس بحث کو سراب اور فریب کا تعاقب قرار دیتی ہے۔ کیوں کہ اس مقصد کے لیے مذہبی رواداری کا اصول ماننا ہوگا۔  بقول  برنارڈ لوئیس ’’رواداری نئی فضیلت ہے اور عدم رواداری نیا جرم‘‘۔ لوئیس کو دور جدید سے شکایت تھی کہ قدیم دور میں مذہبی تعصب وجہِ فضیلت اور کار ثواب تھا، آج کے دور میں قابل نفرت جرم ہے، مذہبی رواداری کل تک ایمان کی کمزوری سمجھی جاتی تھی آج ایک مثبت اور قابل ستائش قدر ہے۔یہی تصور ہمیں فارقی کی  آپ بیتی میں ملتی ان کے  مابعد جدید فلسفہ   اور مذہبی وابستگی    انسانیت  کی پاک دامنی  کو فروغ دیتی ہے۔

 فارقی  کی مذہبی وابستگی کے علاوہ  انھوں نے ریڈیو کی دنیا کے بعد ان کا سفر حج بھی  بہت خوبصورت  گزرا   ہے۔چوں  کہ انھوں نے  اپنے وطن، اہل و عیال ، دوست و رشتہ داراور مال و دولت اور رشتے دار و اقارب کو چھوڑ کر اور مال و دولت خرچ کرکے  حج کا سفر کیا  ۔ انھوں نے حج   بڑی دل جمائی سے ادا کیا  ۔اس کا ذکر ان کے سفر حج میں   ملتا ہے۔اس سفر کو پڑھنے سے ہمیں  کعبہ مشرفہ کے حج و زیارت پر ابھارا، مہبط وحی و رسالت کے دیدار کا شوق  پیدا ہوتا ہے۔ اورسب سے بڑھ کر شریعت نے حج کا اتنا اجر و ثواب متعین کیا کیا  ہے اس کا بھی احساس  ہوتا ہے۔ان  کا سفر حج ایک عاشقانہ سفر  کا ثبوت ہے۔

' زندگی کے دیگر  رویے'

اس باب میں انھوں نے   اپنی زندگی کے تمام اتار چڑو   کا مختصر اشاروں  میں      پیش کیا ہے۔ انھوں نے زندگی  کا اطلاق ماحول کے مطابق خود دھالنے اور مثبت رویہ اپنانے  کو زور دیا ہے۔ زندگی کے مطالبات اور مشکل صورت حال کو مؤثر انداز سے  میں پیش کیا ہے۔  سماجی طور طریقوں اور توقعات کی روشنی میں مختلف انداز میں اپنی گزی ہوئی یادوں  کو بڑی خوبصورتی  سے پیش کیاہے۔ ایسی صلاحیتیں جو خوش حالی کی کارکردگی اور افراد کو برادری کے افعال اور تعمیری ارکان بننے میں معاون  تھیں ان سب کا ذکر کیاہے۔ فارقی نے زندگی کی صلاحیتیوں کو خود اپنے علم کی روشنی میں پرکھا۔ اور آخر  میں وہ کہتے ہیں' اللہ کی اطاعت کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزاری جائے۔" اس کا ئنات کی وسعت اور عظمت اور دنیا کی زندگی کے سامنے انسان کی اپنی زندگی سمندر کے ایک قطرے اور پانی کے ایک بلبلے سے کچھ کم نہیں  انسان کی زندگی میں ملنے والا وقت چند لمحوں سے زیادہ  کچھ بھی نہیں  اس لیے انسان اس پل دو پل کی زندگانی کی قدر کرے اور ایسا کام کر جائے رہتی انسانیت اسے  اس کے کار ناموں کے سبب یاد کرتی رہے۔"  اس طرح انھوں نے دو باتوں  پر   اپنی آپ بیتی  ختم  کی ہے ایک حقوق اللہ  یعنی ہمیں عبادات کے حق ادا کرنے ہیں۔ قرآن کریم کی تلاوت کرنی ہے۔تسبیح و تحمید اور ذکر الہٰی میں وقت گزارنا ہے۔ صدقات وخیرات اور زکوٰۃ ادا کرنی ہے۔

دوسرا حقوق اللہ اورحقوق العباد کی ادائیگی آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حقوق العباد کو حقوق اللہ پر فوقیت دی ہے کہ اگر اللہ کا کوئی حق ادائیگی سے رہ جائے تو انسان اللہ تعالیٰ سے معافی مانگے تو وہ معاف فرما دیتا ہے۔ لیکن اگر حقوق العباد کی ادائیگی میں کوئی کمی رہ جائے یا کسی اللہ کے بندے کے ساتھ زیادتی ہو جائے تو جب تک زیادتی کا شکار ہونے والے شخص سے معافی نہ مانگی جائے خدا معاف نہیں فرمائے گا۔

یہ آپ بیتی مصنف کی  زندگانی پر مبنی ہے۔اس خود نوشت یاسوانح عمری کو انھوں نے اپنے حافظے  سےنصیحت وعبرت اور سبق آموز پیغام دیاہے۔ وہ  ہر وقت غوروفکر میں رہتے ہیں۔مختلف نقطۂ نظر سے سوچتاہیں۔اسی  کا نتیجہ یہ کاوش ہے  جو اہم اور سبق آموز  ہے۔ ان کے  تجربات ومشاہدات سے بھی پتہ چلتا ہے،ایسی باتوں کا ذخیرہ سب کے پاس  نہیں  رہتا۔آپ بیتی کا سلیقہ  قلم کار کو  مستفیدہونے کے لائق بناتاہے،ورنہ یہ سب ذہن سے نکل جاتا ہے۔ اردو نثر میںیہ  صنف ہر دور میں رائج  رہی ہے۔اس میں خود پر گزرے حالات کے علاوہ صدمات اورتأثرات   ہوتے  ہیں۔جودل چسپ واقعات کے تانے بانے میں گوندھ کر خود نوشت کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔اس میں قصہ کہانی کی گنجائش نہیں  رہتی    نہ  ہی فرضی واقعات ۔بہترین ثبوت" پل  دو پل  کی زندگانی(آپ بیتی"  ہے۔   یہ  معاشرے کی مصداق نہ ہونے کے باوجود   قریب نظرآتی ہے۔   اس کتاب کا سفر انھوں نے  ابتداسے  کیا ہوگا ۔ جس پختگی سے اپنی یاداشت کا مظاہرہ کیا ہے  وہ  اچانک  میں ممکن  نہیں ہے۔بقول  ساحر لدھانوی:

میں پل دو پل کا شاعر ہوں پل دو پل مری کہانی ہے                       ؛               پل دو پل میری ہستی ہے پل دو پل مری جوانی ہے

مجھ سے پہلے کتنے شاعر آئے اور آ کر چلے گئے                            ؛               کچھ آہیں بھر کر لوٹ گئے کچھ نغمے گا کر چلے گئے

وہ بھی اک پل کا قصہ تھے میں بھی اک پل کا قصہ ہوں ؛               کل تم سے جدا ہو جاؤں گا گو آج تمہارا حصہ ہوں

مذکورہ اشعار میں شاعر نے اپنی زندگی کی مختصری اور جوانی کی زیبائی بہت خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ چوں کہ ہر لمحہ  میں  ایک الگ ہی داستان چھپی ہوتی ہے، جسے پل  دو پل میں بیان کرنا  بہت مشکل ہے ۔ وہی گزرے ہوئے پل   ہماری ہستی کا حصہ بن جاتاہے۔ وہی کیفیت  فاروقی کی  آپ بیتی میں نظر آتی ہے۔یہ فکر ہر دور میں شاعرانہ احساسات کو ظرافت سے ادا کرتی ہے۔ ادب کی دنیا میں بہت سے شاعر آئے اور چلے گئے ہیں، ان کی شاعری کو وقت کی روشنی میں ہمیشہ یاد کیا جاتا ہے۔ ہر ایک شاعر اپنے انداز میں زندگی، محبت، اور جذبات کو بیان کرتا ہے۔ اسی  طرح آپ نے  بھی  اپنی سوانح  عمری بیان  کی ہے۔ جیسے  ساحر لدھیانوی نے کیا تھا:

پل دو پل میں کچھ کہہ پایا اتنی ہی سعادت کافی ہے                        ؛               پل دو پل تم نے مجھ کو سنا اتنی ہی عنایت کافی ہے

کل اور آئیں گے نغموں کی کھلتی کلیاں چننے والے                        ؛               مجھ سے بہتر کہنے والے تم سے بہتر سننے والے

ہر نسل اک فصل ہے دھرتی کی آج اگتی ہے کل کٹتی ہے               ؛               جیون وہ مہنگی مدرا ہے جو قطرہ قطرہ بٹتی ہے

ساگر سے ابھری لہر ہوں میں ساگر میں پھر کھو جاؤں گا                                ؛               مٹی کی روح کا سپنا ہوں مٹی میں پھر سو جاؤں گا

کل کوئی مجھ کو یاد کرے کیوں کوئی مجھ کو یاد کرے                     ؛               مصروف زمانہ میرے لیے کیوں وقت اپنا برباد کرے

 ساحر کی  طرح محمد اسلم فارقی نے بھی  آپ بیتی   میں وہی کیفیت  ملتی  ہے جیسے  ساحر ؔ کے  مذکورہ اشعار میں ہے۔ کم    وقت میں  بھی  اہم بات کر پائیں۔ چوں  کہ وہ  مجاہد  ادب   ہیں۔انھوں نے اس کتاب  میں حفظ کے بعد  امامت و خطابت کے بجائے اردو میں ایم۔اے اور پی ایچ۔ ڈی  کیا ہے۔ اس وقت ظہیر آباد گورنمنٹ ڈگری کالج  پرنسپل ہیں۔ساتھ ہی تصنیف و تالیف میں مصروف ہے ۔ اردو زبان و ادب کو ٹکنالوجی سے جوڑنے  میں اہم رول ادا کررہے ہیں۔  طلباء و طالبات  کو مسابقتی امتحانات کی   تیاری  پر مضامین اور کتابیں لکھا ہے۔سماج کی فلاح ومذہبی امور میں حصہ لیتے ہیں۔ سمینار اور کانفرنسیس  کرواتے  اور  شریک  بھی  رہتے ہیں۔سرکاری  پالیسیوں اور اسکیموں سے واقف  کرتے ہیں۔ تمام خدمات  نیک نیتی، ایمانداری اور دیانتداری سے کرتے ہیں۔یہ ان کی  تربیت کا نتیجہ  ہے۔ اچھے اساتذہ کی نگرانی میں ہوئی ہو۔وہ کہتے ہیں ان کی کامیابی میں  ان کے والدین، بھائی بہن، اساتذہ، ماحول، خود کی محنت و مشقت اور سب سے بڑھ کر رحمتِ خدا وندی ہے۔

فاروقی بحیثیت مصنف و ادیب ، صحافی و استاذ کہ اردو زبان و ادب کے علاوہ  سیاسی اور سائنسی مسائل پر لکھا ہے۔  ثبوت ان کے مضامین جو قومی و بین الاقوامی اخبارات، رسائل اور انٹرنیٹ کی اہم ویب سائٹز پر  ہیں۔ ان کے زیر نظر تحقیقی و تنقیدی مضامین  اردو زبان و ادب کے مختلف گوشے ہیں۔  سچ بولنا اور سچائی کو زندہ رکھنا مشکل امر ہے۔   ہر میدان میں مصلحت پسندی عام ہو چکی ہے۔  بہت سے معاملات میں سمجھوتا کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔ وہ نہایت دیانتداریسے کام کرتے  ہیں۔ ان کی آپ بیتی سے معلوم  ہوتا ہے   کہ انہوں نے نہ مصلحت سے کام لیا ہے اور نہ کسی سے سمجھوتہ کیا ہے۔وحقائق  کو فن کی کسوٹی پر  بیان  کرتے ہیں۔یہی ان کی  انفرادیت  ہے۔

 فاروقی کی آپ بیتی میں  گفتگو سنجیدہ، متانت پسندی، آہستہ روی، سائنٹفک اور مذہبی پیرائے میں ہے۔انھوں نےمنطقی دلائل سے ادبی فن پارہ اور فنکار کی عظمت پیش کی ہے۔انھوں نے شعر و ادب کا جائزہ  فکری و فنی نقطئے نظر پرکھا ہے۔ ہر موضوع  کی روح سے اہم نکات  تلاش کیے ہیں۔ یہی  فکران کی آپ بیتی  میں  ہے۔ ان کا مشاہدہ اور تفکر  میں  روانی ہے۔ وہ دکھاوے کے برعکس ہیں۔ وہ نہ انتہا پسندہے  نہ  جارحانہ عمل اورمصلحت پسندی کو فروغ دیا ہے۔ وہ ایک متوازن  علمی زاویۂ نگاہ سے ادب کیافہام و تفہیم کا فریضہ انجام دیا ہے۔

 ادبا کی کتابوں پر لکھے گئے ان کے تعارفی تبصرے بھی تنقیدی بصیرت کے حامل ہیں۔ مجموعی طور پر ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کے یہ مضامین سادہ اور رواں اسلوب کی چاشنی کے ساتھ ساتھ تحقیق، تنقید، پرکھ، پہچان اور ادب کی تفسیر کے ضمن میں اہمیت کے حامل ہیں اور اردو ادب کے با ذوق قارئین کے لیے کتابی شکل کے ساتھ آن لائن بھی مطالعے کے لیے دستیاب ہیں۔ اسلم فاروقی   قلم   کے دھنی ہیں۔ثبوت میں ان کا  مضمون'میری آپ بیتی کا ایک باب۔ریڈیو کی دنیا' میں مکمل  ادبی  رنگ دیا ہے:

انسان کا ماضی اس کی یادوں کا سرمایہ ہوتا ہے۔ آج سے چالیس سال پہلے کییادوں سے پردہ اٹھایا جائے تو لگتا ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ زمانے نے کیسے تیز رفتار ترقی کر لی۔ پانچ تا دس سال کی عمر کے بعد بچہ شعور کے دور میں پہنچ جاتا ہے اس کے ساتھ ہی اس کی زندگی کییادیں اس کے ماضی کا سرمایہ بن کر تنہائی میں اسے اپنے ماضی کییادوں کو کریدنے اور اور خود کلامی میں مبتلا کردیتی ہیں۔ میرے شعور کی ابتداء 80 کی دہائی کے ابتدائی ایام سے ہوتی ہے۔۔۔ ہمارے گھر کا نام یعقوب منزل تھا جو کویلو کا بنا ہوا تھا گھر میں میٹھے پانی کا نل اور پڑوسی گھر کے ساتھ مشترکہ باؤلی تھی جسے کنواں کہا جاتا تھا۔ محلے میں کم لوگوں کے گھر سرکاری نل ہوا کرتا تھا اس لیے ہماری دادی ماں نل والی خالہ کے طور پر مشہور تھیں۔ انسان بچپن جس گھر میں گزارتا ہے وہی اکثر اس کے خواب میں آتا رہتا ہے۔ آج ہم کئی گھر بدل چکے ہیں لیکن وہی بچپن کا گھر خواب میں آتا ہے جس گھر میں موسم گرما میں آنگن میں پلنگ ڈالے رات چندا ماما کو دیکھ کر سویا کرتے تھے۔ ایک ٹیبل فین کے سامنے فرش پر سب بھائی بہن سوتے اور اکثر جھگڑا ہوتا کہ فین کی ہوا ہمیں زیادہ لگے۔ ہماری دادی ماں جب بھی نیا چاند دیکھتی تھیں تو میرے بڑے بھائی ڈاکٹر محمد احسن فاروقی کا چہرہ دیکھا کرتی تھیں وہ کہا کرتی تھیں کہ اس سے ان کا اگلا مہینہ اچھا گزرے گا۔ ہم بھائی بہنوں کی طرح میرا داخلہ بھی نظام آباد کے مشہور اردو میڈیم اسکول میں ہوا جس کییادیں ایک الگ مضمون میں بیان کی جاچکی ہیں۔ دس سال کی عمر رہی ہوگی اس وقت گھر میں جو ماحول میں نے دیکھا تو لگا کہ والد صاحب اور بھائی بہنوں کو کرکٹ میچوں کی ریڈیو کمنٹری سننے کا بہت شوق تھا۔اور یہی شوق ریڈیو کے ساتھ میرےبچپن کے سفر کا حصہ رہا۔ ۔۔کبھی سعودی ریڈیو سے حرم شریف کی اذان سنائی دے تو دل خوش ہوجاتا تھا کہ ہمیں گھر بیٹھے حرم شریف کی اذان سننے کا موقع ملا۔[3]

 اس اقتباس  سے معلوم ہوتا ہے انھوں نے اپنی زندگی کے ہر نوک و پلک کو  بڑی باریک بینی سے  پیش کیا ہے۔ان کے تجربات  میں " عزیز احمد کی ناول نگاری  کا تنقیدی مطالعہ "جس وقت تر قی پسند تحریک کے زیر اثر ملک کے حالات لکھ رہے   تھے ،اسی زمانہ میں وہ حیدرآباد سے لے کر انگلستان تک کی ثقافت و تہذیب کو پیش کیےاس   میں انھوں نے   حالات    زندگی کو  فنی   اور ادبی اعتبار سے  پیش کیا ہے۔ جیسے  ابتدا میں صیغہ   استعمال کرنے کے بعد  اپنا تعارف بیان کیا ہے۔ اپنے وجود  سے قبل کاذکر،بعدمیں رونماہونے والی تبدیلیوں کو سامنے لایا ہے۔ ابتدائی جذبات،پرورش، بڑھوتری اور ترقی کوبیان کیا ہے۔ اس کے بعد   زندگی کے اہم حالات و واقعات، ملاقات کے تأثرات، مختلف امورکے آغاز،انجام،نشیب وفرازپیش کیا ہے۔ساتھ ساتھ غیر متوقع عروج وزوال، اسکے اسباب ووجوہات،فوائد ونقصانات کن کن مرحلوں سے گزر کر موجودہ صورت ِ حال کو پہنچے ہیں اس  کی بہترین عکاسی کی ہے۔اختتام میں اپنی زندگی سے حاصل ہونے والے تجربات کو تحریری صورت میں پیش کرتے ہوئے اہم پیغام دے کر نیک خواہشات اوردعائیہ کلمات پر اپنی آپ بیتی کوختم کیے  ہیں۔ثبوت میں   کتاب میں شامل  مضامین کی ابتدا   خود  انھوں  " کچھ اس  آپ بیتی کے بارے میں"  لکھتے ہیں:

 اسلم فارقی  کی آپ  بیتی پڑھنے  سے ہمیں ایسا محسوس  ہوتا ہے کہ  زندگی کتنی حسین ہے۔ جو بھی حالات  ہوں     اس کاثابت قدمی سے  خوبصورت  انداز میں صبر و تحمل کے ساتھ حل تلاش کرنا  چاہیے۔اس کتاب میں متعدد  مثالیں   ہیں۔ اس کے علاوہ  محققین ، ناقدین اور  مصنفین کے لیے ایک  بہترین ذریعہ ہے۔  اس کتاب میں  سہل زبان،مختصر جملوں میں پیام اور آپ بینی   بیان کرنے کا ہنر  ملتا ہے۔ اوراپنےپیش آمدہ حالات وواقعات اوران سےحاصل شدہ سبق اورتجربات ومشاہدات کوبھی پیش کیا ہے۔ اسلم فارقی کی یہ کوشش مولاناعبدالماجددریابادی کی آپ بیتی سے کم  نہیں لگتی۔

آپ بیتی میں عوامی زبان کا بھی استعمال ہوا ہے جو علاقائی ہے۔ لیکن کتاب کا نفس مضمون  ادبی  ہے۔  بعض مقامات پر جہاں ربط ٹوٹا ہوا لگتا ہے وہ بھی خود بخود مربوط لگنے لگتا ہے۔اسلم فارقی کی زندگی کے اتار چڑھاؤ خوشگوار لمحات و حوادث ایک الگ ہی اہمیت  کےحامل ہیں۔انھوں نے  غیر سماجی عنصر  بیان نہیں  کیے شاید  ایسا تھا نہیں  ہے؟تحریر میں روانی ہے۔ یعنی آگے پیچھے دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ قاری   کے حالات ِ زندگی  سے وابستگی ہوتی جاتی ہے۔ تحریر   ادبی چاشنی لیے ہوئے  ہے لیکن بھاری بھر کم، متروک یا معرا الفاظ استعمال  نہیں کیا ۔یا تحریر میں الفاظ کے حسن کا رنگ بھرنے کی کوشش  نہیں کی گئی  ہے، اس لیے قاری اسے اخبار کے دلچسپ فیچر کی طرح پڑھتا چلا جاتا ہے۔ کہیں بھی ایسا نہیں کہ ’آگے کیا ہو گا‘ کا تجسس پیدا ہو۔

 محمد اسلم فاروقی کی زندگی کا مشاہدہ " پل دو پل کی زندگانی (آپ بیتی)" تصنیف کے لیے مبارک باد پیش کرتی ہوں۔ امید کرتی  ہوں وہ  تحریری خدمات  سےاردو کی   ادبی دنیا میں فکر و تحقیق کی روشنی بکھیرین گے ۔ ان کی آپ بیتی کی اردو دنیا  میں پذیرائی ہو گی۔ دیدی زیب ٹائٹل آئی ایس بی این نمبر کی شناخت رکھنے والی اس کتاب کی قیمت صرف200 روپیے  ہے۔ اس کتاب کو  کالجوں ، جامعیات کے کتب خانے اور ہر اردو کے اساتذہ کے ذخیرہ کتب کا حصہ بنے گی اردو کی اہم کتب  میں شامل رہے گی۔اس کتا ب کو پڑھتے ہو ئے لگتا ہے کہ کتاب نہیں پڑھ رہے بلکہ کو ئی فلم دیکھ رہے ہیں جس میں منظر کشی ہما رے سامنے ہی ہو رہی ہے۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو آپ بیتی کے فنی تقاضوں پر یہ کتاب پوری اترتی ہے۔ جس میںفارقیصاحب نے نہ صرف اس عہد کو زندہ کردیا ہے۔ بلکہ  اردو زبان و ادب  کے فروغ  میں  جدید ٹیکنالوجی   کے ساتھ ساتھ  سیاسی اور سماجی تاریخی افکاربھی اس کتاب میں سماگئی ہے۔ اس لحاظ سے ”پل دو پل کی زندگانی“ ایک مقصدیآ پ بیتی  ہے۔جوہمارا مشترکہ علمی، تاریخی اور ادبی سرمایہ اور مشرقی اقدارِ حیات کا خزانہ ہے۔ یہ اہلِ علم و ادب کی وہ متاعِ فراموش کردہ ہے، جس کی تحقیقی بازیافت اور اس کی تعیینِ قدر کرکے ہم اپنے مستقبل کی تعمیر و ترقی کا نقشہ تیار کرسکتے ہیں۔

 

٭٭٭٭




Powered By Blogger