Saturday 11 March 2023

“عصر حاضر میں اردو ترجمہ نگاری‘مسائل اور امکانات۔ رپورتاژ ڈاکٹر محمد ناظم علی

 


عصر حاضر میں اردو ترجمہ نگاری‘مسائل اور امکانات

دو روزہ قومی سمینار زیر اہتمام شعبہ اردو یونیورسٹی آف حیدرآباد ۶۔۷ مارچ ۲۰۲۳

رپورتاژ: ڈاکٹر محمد ناظم علی



ہندوستان کی جامعات میں جو شعبہ جات اردو قائم ہیں ان میں حیدرآباد دکن میں واقع مرکزی جامعہ یونیورسٹی آف حیدرآباد کا شعبہ اہمیت کا حامل ہے اس شعبے سے جہاں نامور اساتذہ پروفیسر گیان چند جین پروفیسر مجاور حسین رضوی‘پروفیسر سیدہ جعفر‘ پروفیسر ثمینہ شوکت‘ پروفیسر محمد انور الدین اور پروفیسر رحمت یوسف زئی وابستہ رہے اسی شعبہ کے ایک فعال پروفیسر فضل اللہ مکرم بھی ہیں جو اپنی ہمہ جہت صفات اور فروغ اردو کے کاموں میں مہارت کے سبب ہندوستان بھر کے اردو حلقوں میں مقبول ہیں۔ ان کے زیر سرپرستی شعبہ اردو کی جانب سے دو روزہ قومی سمینار بہ عنوان’’عصر حاضر میں اردو ترجمہ نگاری‘مسائل اور امکانات‘‘ یونیورسٹی کیمپس کے ڈاکٹر ذاکر حسین آڈیٹوریم میں 6اور 7مارچ کو منعقد ہوا۔ پروفیسر فضل اللہ مکرم نے ایک مہینہ پہلے سے اس سمینار کی تیاری شروع کردی اور بذریعہ فون اس موضوع سے متعلقہ سبھی اساتذہ اور اسکالرز کو سمینار میں شرکت کے لیے مدعو کیا۔جہاں تک سمینار کے موضوع اور امکانات کا تعلق ہے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اردو میں ترجمے کی روایت بہت قدیم ہے۔ شاہ میراں جی شمس العشاق سے لےکر آج تک ترجمہ کا عمل جاری و ساری ہے۔مذہبی‘علمی‘ادبی‘نثری‘منظوم‘قانونی‘طبی‘عدالتی‘روحانی تراجم کا رواج جاری ہے۔اس فن کے تقاضوں پر کئی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ترجمے کے باقاعدہ اصول مرتب نہیں ہوئے۔لیکن پھر بھی مترجمین دو زبانوں پر عبور حاصل کرتے ہوئے ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کر رہے ہیں۔ ترجمے سے مختلف علوم و فنون تہذیب و تمدن معاشرت عمومی حالات واقعات سے آگہی ہوتی ہے۔ زبان کو وسعت حاصل ہوتی ہے۔ترجمہ اصل کی اصل ہونا چاہیے لیکن یہ اصل کی نقل مانا جاتاہے۔۶ مارچ کی صبح یونیورسٹی آف حیدرآباد کیمپس کا فطری و قدرتی ماحول دلکش لگ رہا تھا شرکائے سمینار کشاں کشاں چلے آرہے تھے انہیں یونیورسٹی کیمپس پہنچ کر شادابی نصیب ہوئی۔ ہوا کے جھونکے چل رہے تھے کچھ مہمان جو دور دراز علاقوں سے سمینار میں شرکت کے لیے نکلے تھے وہ کیمپس کے گیسٹ ہائوز میں ایک دن پہلے ہی پہنچ چکے تھے ڈاکٹر ذاکر حسین آڈیٹوریم جشن اردو کا سماں پیش کر رہا تھا۔ لوگوں کے ہنستے کھلتے چہرے طرب و انبساط کا پیکر تھے۔شائد ان کے لیے موضوع نیا ہو۔اور موضوع سے ذوق و شوق رکھتے ہو۔ صبح ساڑھے دس بجے دو روزہ قومی سمینار کے افتتاحی اجلاس کا آغاز ہوا۔ پروفیسر حبیب نثار صدر شعبہ اردو یونیورسٹی آف حیدرآباد نے شرکا کا استقبال کرتے ہوئے دکنی مثنویوں کی تاریخ اور ترجمے پر روشنی ڈالی واجد علی شاہ کی مثنویوں کا بھی ذکر کیا۔ پروفیسر فضل اللہ مکرم سرپرست سمینار و پروفیسر شعبہ اردو نے سمینار کا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ ترجمہ اہم شعبہ ہے جس سے اردو زبان و ادب کو فروغ حاصل ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترجمے کے حوالے سے منعقد ہونے والے اس دو روزہ قومی سمینار میں کشمیر تا کنیا کماری یونیورسٹی اور کالج کے اساتذہ اور ریسرچ اسکالرز اور مندوبین سمینار شرکت کر رہے ہیں۔اس دو روزہ سمینار میں ترجمے کے عمومی مسائل اور امکانات کے حوالے سے مختلف زاویوں و پہلوئوں پر روشنی ڈالی جائے گی۔ ترجمے پر موضوعات کا تنوع ملے گا۔ امید کی جاتی ہے کہ سمینار میں جو کچھ مباحث ہوں گے اس کے علمی و ادبی اثرات دیر پا اور دور رس ثابت ہوں گے۔ڈاکٹر محمد کاشف اسسٹنٹ پروفیسر و کنوینر سمینار نے سمینار کے مقاصد پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور کہا کہ سمینار مقصدی ہے اس سے نہ صرف اساتذہ بلکہ اسکالرز اور اردو ادب کے طلبا کو بیش قیمت معلومات حاصل ہوں گی۔ ترجمہ کیا ہے اس کے مسائل اور امکانات سے آگہی ہوگی ۔مہمان اعزازی اور افتتاحی خطبہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر آر ایس راجو نے دیا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہندوستان میں کئی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ یہ ایک کثر لسانی ملک ہے۔دیسی اور علاقائی بھاشائوں کی وجہہ سے یہاں کی تہذیب و ثقافت بھی توانا اور مضبوط ہے۔ اس طرح کے کثیر الجہت ماحول کی مثال دنیا میں مشکل سے ملتی ہے۔ مختلف ریاستوں کی زبانوں میں تال میل ہونا ضروری ہے اور ان میں ترجمہ کا عمل ہوتا رہا تو بہت سے انکشافات اور معلومات سامنے آسکتی ہیں۔پروفیسر اشرف رفیع سابق صدر شعبہ اردو عثمانیہ یونیورسٹی نے کہا کہ اردو عالمی زبان بن گئی ہے دنیا کے ہر گوشے میں بولی اور سمجھی جاتی ہے لکھی اور پڑھی جاتی ہے۔ ہندوستان کے مختلف اداروں میں سنسکرت فارسی ہندی سے اردو میں  ترجمہ ہورہا ہے۔پانچ سال مین ۹۰ہزار کتابوںکا ترجمہ ہوا۔مترجم کو چاہیے کہ وہ دونوں زبانوں پر عبور حاصل کرے۔ دور قدیم میں اصطلاحات سازی پر کام ہوا تھا اب زبانیںنئی اصطلاحات سے معمور ہیں ان کے قابل قبول تراجم دوسری زبانوں میں ہونے چاہیں۔ثقیل اور ثقہ الفاظ کی تمیز ہونا چاہیے۔ ترجمہ طبع زاد ہو۔ پروفیسر شہاب عنایت ملک ڈین انسٹی ٹیوٹ آف میوزک اینڈ فائن آرٹس جموں یونیورسٹی نے اپنے خطاب میں کہا کہ اردو میں ترجمے کی صورتحال پہلے جیسی نہیں ملتی۔ پھر بھی شعور ی کوشش ہورہی ہے۔ کشمیر مین رنبیر سنگھ کا قائم کردہ دارالترجمہ موجود ہے۔ جس میں ڈوگری اور دیگر کشمیری زبانوں سے اردو تراجم ہوہ رہے ہیں۔ہندوستان کی ہر جامعہ میں ترجمے کا شعبہ قائم ہونا چاہیے۔ تاکہ زبانوں کو فروغ اور تقویت پہنچے۔ مشینی ترجمہ کی ضرورت ہے لیکن اس کے لیے انسانی مدد لازمی ہے۔ بغیر انسانی مدد کے مشینی ترجمہ مکمل نہیں ہوسکتا۔ پروفیسر ارجمند آرا شعبہ اردو یونیورسٹی آف دہلی نے کلیدی خطبہ پیش کیا۔انہوں نے کہا کہ ترجمے کے لیے شوق و جذبہ ہونا چاہیے۔ ترجمے سے علم کی ترسیل ہوتی ہے۔ مترجم کو مصنف کے قالب میں اتر جانا چاہیے۔ جس طرح اداکار اپنے کردار میں ڈوب جاتا ہے۔ تو تراجم کے اولین نمونے اسد محمد خاں بھوپال سے ملتے ہیں۔ترجمہ خیر کا کام بھی ہے مذہبی کتب کے تراجم اس کی مثال ہیں۔ترجمہ دو تہذیبوں کے درمیان پل کا کام کرتا ہے۔دونوںمیں تخلیقی عمل ہونا چاہیے۔پروفیسر ارجمند آرا نے اپنے کلیدی خطبے میں مزید کہا کہ بعض تراجم اصل سے زیادہ عمدہ ہوتے ہیں۔ اس میں محنت مشقت ریاضت ہو تو اصلی روح بھی ترجمے میں منتقل ہوسکتی ہے۔عصر حاضر میں اردو ترجمہ نگاری اہمیت مسائل اور امکانات پر شعبہ اردو کے صدر اور رفقائے کار کا قابل تحسین اقدام ہے کہ انہوں نے اردو کے سلگتے ہوئے موضوع پر دوروزہ قومی سمینار کا انعقاد کیا۔

 پروفیسر رحمت یوسف زئی سابق صدر شعبہ اردو یونیرسٹی آف حیدرآباد نے صدارتی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ ترجمہ سے علم میں اضافہ ہوتا ہے۔ ترجمہ کا آغاز دکن سے ہوتا ہے ترجمہ دو دلوں کے درمیان رشتہ بھی ہے اس افتتاحی اجلاس کی نظامت ریسرچ اسکالر محمد خوشتر نےکی اور کلمات تشکر ڈاکٹر نشاط احمد اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو نے ادا کیے۔

            چائے کے وقفے کے بعد دو روزہ قومی سمینار کے پہلے تیکنکی سیشن کا آغاز ہوا۔جس کی صدارت پروفیسر اشرف رفیع سابق صدر شعبہ اردو عثمانیہ یونیورسٹی اور پروفیسر مجید بیدار سابق صدر شعبہ اردو عثمانیہ یونیورسٹی نے کی۔ڈاکٹر امان اللہ شعبہ اردو مدراس یونیورسٹی نے ٹامل سے اردو میں ترجمہ شدہ کتب پر روشنی ڈالی ۔ پروفیسر شہاب عنایت ملک نے اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ترجمہ ایک مکتب ہے انہوں نے مترجم کو عرق ریزی اور محنت سے کام کرنے کی ضرورت بتائی۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر میں دارالترجمہ ۱۸۴۶ ٗ سے قائم ہے۔مغربی علوم اور متون کے یہاں ترجمے ہوئے۔ پروفیسر رحمت یوسف زئی نے مضمون ہندوستان مین مشینی ترجمہ ایک جائزہ پیش کیا انہوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی کی ترقی کے بعد جدید اصطلاحات کو اردو میں ڈھالا جائے۔ انہوں نے کمپیوٹر اور فون کی بدلتی ٹیکنالوجی اور مشینی ترجمے کے مسائل پر گفتگو کی۔ انہوں نے کہا ترجمے کے لیے علمی معیار ہونا چاہیے۔ مشینی ترجمہ انسان سے مربوط ہوتا ہے۔ صدارتی کلمات پروفیسر اشرف رفیع اور پروفیسر مجید بیدار سابق صدر شعبہ اردو عثمانیہ یونیورسٹی نے ادا کیے ۔ اس اجلاس کی نظامت شعبہ کی اسکالر اسما امروز نے انجام دی اور اظہار تشکر  بھی پیش کیا۔

            دو روزہ قومی سمینار کا تیسرا اجلاس پروفیسر عبدالحمید اکبر صدر شعبہ اردو خواجہ بندہ نواز یونیورسٹی گلبرگہ پروفیسر سید جمال محمد سابق پرنسپل یو ٹی آر سی آئی آئی ایل سوسلن کی صدارت میں منعقد ہوا۔ ڈاکٹر محمد فہیم الدین احمد مانو نے علمی ترجمہ بنیادی ماخذڈاکٹر صابر علی سیوانی نے وضع اصطلاحات مسائل اور امکانات ڈاکٹر ابو شہیم خان مانو نے کلام نظیر پر انگریزی تراجم ڈاکٹر ارشاد احمد خان صدر شعبہ اردو این ایس بی کالج ناندیڑ ڈاکٹر نور الامین صدر شعبہ اردو شارا مہاودیالیہ پربھنی نے گوگل ترجمہ اور احتیاط کے حوالے سے محمد مصطفی علی سروری مانو نے صحافتی تراجم مسائل اور امکانات ڈاکٹر رونق عبدالرحمن رئیس صدر شعبہ بی این این کالج یونیورسٹی آف بمبئی نے ترجمہ اور روزگار کے مواقع پر پر مغز مقالہ جات پیش کیے۔ اس اجلاس کی نظامت محمد کفیل نے کی اور شکریہ بھی ادا کیا۔ چوتھا اجلاس ڈاکٹر معید جاوید سابق صدر شعبہ اردو عثمانیہ یونیورسٹی اور پروفیسر عبدالرب استاد صدر شعبہ اردو گلبرگہ یونیورسٹی گلبرگہ کی صدرات میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں شکیلہ گوری خان دھارواڑ کرناٹک نے ڈاکٹر ماہر مقصود کی ترجمہ نگاری ڈاکٹر طیب خرادی نے حضرت سلمان فارسی کے تراجم قرآنی سورہ فاتحہ ایک جائزہ ڈاکٹر انوپ پول صدر شعبہ اردو بنگلور یونیورٹی نے فورٹ سینٹ جارج کالج مدراس میں ترجمے کے کام ڈاکٹر عظمت اللہ ایم وی ایس گورنمنٹ کالج محبوب نگر نے تلگو ناول کا ترجمہ ایک جائزہ ڈاکٹر حمیرہ تسلیم نے منظوم اردو تراجم ایک جائزہ ڈاکٹر شمس الدین نے ترجمہ کی اہمیت اے شبیر پاشاہ نے شائستہ فاخری کے اردو تراجم ڈاکٹر محمد سمیع الدین بیجا پور نے ترجمہ نگاری کی اہمیت موضوعات پر مقالے پیش کیے اس اجلاس کی نظامت نیہا نورین نے انجام دی۔ اور شکریہ ادا کیا۔

            سمینار کا پانچواں اجلاس دوسرے دن صبح پروفیسر قاسم علی اور پروفیسر سید سجاد کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس کے پہلے مقالہ نگار ممتاز مزاح نگار ڈاکٹر عابد معز تھے انہوں نے طبی تراجم اور وضع اصطلاحات پر معلوماتی مقالہ پیش کیا۔ اس اجلاس کے دیگر مقالہ نگار ڈاکٹر امتیاز احمد ڈاکٹر موسیٰ اقبال اردو ترجمہ کی اقسام‘ ڈاکٹر محمد عبدالقوی عصر حاضر میں اردو ترجمہ کی تہذیبی اہمیت عالمی تناظر میں ڈاکٹر مصباح النظر ‘محمد آصف علی روبی ٹی وی ترجمہ نگاری اور صحافتی تراجم موضوعات پر مقالے پیش کیے۔

            سمینار کا چھٹا اجلاس پروفیسر سجاد حسین یونیورسٹی آف مدراس اور پروفیسر ارجمند آرا دہلی یونیورسٹی کی صدارت میں منعقد ہوا۔ڈاکٹر محمود کاظمی مانو نے شعری ترجموں میںہئیت کے مسائل‘ کہکشاں لطیف نے ترجمے کے اصول و نظریات‘ ڈاکٹر محمد عبدالقدوس ‘ڈاکٹر گل رعنا نے تراجم کے حوالے سے ترجمہ نگاروں کی خدمات‘ پروفیسر نکولس نے کیرالا میں اردو تراجم پروفیسر لطیف نے مذہبی تراجم موضوعات پر مقالے پیش کیے۔

            سمینار کا ساتواں اجلاس پروفیسر نسیم الدین فریس اور پروفیسر کے وی نکولن سابق صدر شعبہ اردو کیرالا یونیورسٹی کے زیر نگرانی منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں ڈاکٹر قاری نصیر الدین منشاوی نے ترجمہ کا فن‘عبدالرحمن دائودی نے اردو اور تلگو کا ادبی رشتہ ترجمے کے حوالے سے ڈاکٹر محمد یاسر نے ٹامل ناڈو فورٹ سینٹ جارج کالج کی خدمات تراجم کے حوالے سے محم سیفی عمری نے جامعہ دارالسلام عمر آباد کی ترجمہ نگاری ڈاکٹر اسلم پرویز مانو نے اردو میں ترجمہ کی روایت اور موجودہ صورتحال مانو کے حوالے سے ڈاکٹر محمد سعید الدین وانم باڑی اردو ترجمے کے فروغ میں انیسویں صدی کے اداروں کی خدمات کا ایک تاریخی جائزہ‘ ڈاکٹر سید سیف اللہ اسسٹنٹ پروفیسر اردو گورنمنٹ ڈگری کالج برائے اناث نلگنڈہ نے اردو میں علمی و سائنسی ترجمے کی روایات اور امکانات سردار ساحل کڈپہ نے اردو ترجمہ نگاری میں دارالترجمہ کا مقام ڈاکٹر میمونہ بیگم اسسٹنٹ پروفیسر اردو گورنمنٹ ڈگری کالج چنچل گوڑہ حیدرآباد نے ترجمے کے مسائل ڈاکٹر رضوانہ بیگم صدر شعبہ اردو گورنمنٹ سٹی کالج حیدرآباد نے ترجمے کی اہمیت اور ضرورت موضوعات پر مقالے پیش کیے۔ اس اجلاس کی نظامت کے فرائض قمر احمد نے انجام دئیے اور انہوں نے شکریہ ادا کیا۔

            سمینار میں ریسرچ اسکالرز کے لیے متوازی سیشن کا انعقاد عمل میں آیا جس کی صدارت ڈاکٹر شوکت حیات سابق پروفیسر ڈاکٹر بی آر امبیڈکر اوپن یونیورسٹی حیدرآباد اور ڈاکٹر محمد ناظم علی سابق پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج موڑتاڑ نے انجام دی۔ ڈاکٹر عرشیہ جبین شعبہ اردو یونیورسٹی آف حیدرآباد نے بھی اس اجلاس کی نگرانی کی۔ اس اجلاس میں ڈاکٹر عتیق اجل نے فن ترجمہ نگاری‘ محمد شاکر نے ڈاکٹر روئوف خیر کی ترجمہ نگاری‘شبلی آزاد مانو نے قدیم داستانیں ترجمہ یا ماخوذ جاوید رسول نے عصر حاضر میں اردو ترجمہ نگاری اہمیت مسائل اور امکانات اعجاز احمد مانو نے فورٹ سینٹ جارج کالج اور ترجمہ نگاری نیہا نورین نے مشینی ترجمہ فوائد اور حل شرمین گھامڑ نلگنڈوی کا اردو ترجمہ لوکا گیتالو‘قاسم بدر تراجم کے میدان مین سرسید احمد خان کی خدمات گلنار خاتون امجد حیدرآبادی کی ترجمہ نگاری گلستان امجد کے حوالے سے ‘شاہ میر عرفات سرکاری و نجی اداروں میں اردو تراجم کے موضوعات پر مقالے پیش کیے اس اجلاس کی نظامت عرفات نے کی۔

            اختتامی اجلاس میں ڈاکٹر محمد ناظم علی‘ڈاکٹر محمد شوکت حیات‘ ارجمند آرا پروفیسر جمالی‘ پروفیسر ایس اے شکور‘ڈاکٹر محمد کاشف‘ پروفیسر فضل اللہ مکرم نے دوروزہ قومی سمینار کے مباحث اور نتائج اور امکانات کا جائزہ پیش کیا۔ پروفیسر نسیم الدین فریس نے کہا کہ اس سمینار میں سو مقالے پیش کیے گئے جو کسی اور سمینار میں نہیں پیش ہوئے۔سمینار جیسا ماحول نظر آیا۔ہر اعتبار سے یہ ایک کامیاب سمینار رہا۔ تاریخی دستاویز بن گیا۔ اس سمینار کی کامیابی کے لیے شعبہ اردو کا تدریسی و غیر تدریسی عملہ قابل مبارکباد ہے۔ ڈاکٹر عبدالرب منظر نے شکریہ ادا کیا۔ وائس چانسلر قابل مبارکباد ہیں کہ انہوں نے شعبہ اردو کے تحت اس اہم سمینار کے انعقاد کی اجازت دی۔

اس سمینار میں ترجمہ کے عمومی مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے صدر اور مہمانان خصوصی نے کہا کہ ترجمے کے ضمن میں جدید اصطلاحات پر کام ہونا چاہیے۔شاعری کا ترجمہ بہت مشکل ہے۔ کی سی ہے کا ترجمہ نہیں کیا جاسکتا۔دو روزہ قومی سمینار میں شعبہ اردو کے اساتذہ ڈاکٹر نشاط ڈاکٹر اے آر منظر ڈاکٹر کاشف ڈاکٹر عرشیہ جبین اور ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ نے سرپرست سمینار پروفیسر فضل اللہ مکرم صاحب کے ساتھ مل کر سمینار کو کامیاب بنانے کی کوشش کی۔ مہمانوں اور شرکا کے لیے ضیافت اور یونیورسٹی گیسٹ ہائوز میں قیام و طعام کا اچھا انتظام کیا گیا ۔ اختتامی اجلاس میں سبھی مہمانوں کو مومنٹو پیش کیے گیے اور مقالہ نگاروں کو سند دی گئی۔ امید کی جاتی ہے کہ اس سمینار میں پیش کردہ مقالوں کو کتابی شکل دی جائے گی تاکہ سمینار میں پیش کردہ مباحث سے مستقبل میں اردو ترجمہ نگاری کو نئی جہت عطا ہو۔

           

 


Powered By Blogger