Sunday 11 November 2018

سیرت النبی ﷺ اور پیارے نبیﷺ کی پیاری سنتیں۔تالیف: حافظ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی

سیرت النبی ﷺ اور پیارے نبیﷺ کی پیاری سنتیں
از حکیم محمد اختر صاحب

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں      یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
تالیف:          حافظ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی
صدر شعبہ این ٹی آر گورنمنٹ ڈگری کالج محبوب نگر


بسم اللہ الرحمن الرحیم
مطالعہ سیرت النبی ﷺ کی اہمیت
                                               
          ماہ ربیع الاول کو پیغمبر اسلام ‘سرکار دو جہاں رحمت اللعالمین حضرت محمد ﷺ کی ذات بابرکت کے ساتھ خاص مناسبت ہے۔و ہ اس طرح کہ اس ماہ مبارک میں آپﷺ کی ولادت با برکت ہوئی جو اس سر زمین کا سب سے بڑا واقعہ ہوا۔ اور اسی ماہ میں آپ ﷺ نے اس دنیا سے پردہ فرمایا۔جو اس دنیا والوں کے لئے سب سے بڑا حادثہ رہا۔ ماہ ربیع الاول میں میلاد النبیﷺ کی مناسبت سے مسلمان عموماً محافل میلا د مقرر کرتے ہےں۔اور حضور اکرم ﷺ کی سیرت پاک کے مختلف پہلوں کو اجاگرکیا جاتا ہے۔اور ہونا بھی یہی چاہئے کہ اس ماہ کو سیرت پاک کے بیان اور اسے عام کرنے میں استعمال کیا  جائے۔ایک ایسی زمانے میں جب کہ یہودی سازش کے تحت مسلمان ٹی وی انٹرنیٹ اور سیل فون کے ذریعے موسیقی اور رقص و سرور میں ڈوب رہے ہیں اور اپنے مذہب اور نبی ﷺ کی سیرت سے غفلت برت رہے ہیں۔ انہیں نبیﷺ کی سیرت یاد دلانے اور اسے اپنی زندگی میں لاتے ہوئے اپنی دنیا اور آخرت کو کامیاب بنانے کے قابل بنانا وقت کا اہم تقاضہ ہے۔ اس ماہ میں خصوصیت سے مسلمان میلاد النبی ﷺ کے جلسے منعقد کرتے ہیں اور لوگ بھی ان محافل میں عام طور پر بڑی تعداد میں شرکت کرتے ہیں۔ اس لئے ان مواقع کو غنیمت جان کر اس کفر و الحاد اور بے دینی کے دور میں سیرت پاک ﷺ کے مختلف گوشوں کو مسلمانوں تک پہونچانا چاہئے۔ حضور اکرم ﷺ کی ولادت با سعادت سے قبل ساری دنیا میں عموماً اور عرب علاقوں میں خصوصاً جہالت کی انتہا تھی اور عرب لوگ اپنی بچیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے۔ اس بات پر کہ ایک قبیلے کا اونٹ دوسرے قبیلے کے اونٹ سے پہلے تالاب سے پانی پی لیا دو قبائل میں کئی سال تک جنگ و جدال رہتا تھا۔ایسے کفر و جہالت کے دور میں اللہ تعالیٰ نے رحمت اللعالمین ﷺ کو مبعوث فرمایا۔ اور آپ ﷺ نے اپنی حیات مبارکہ کے63سال اور نبوت کے عہدے پر سرفراز ہونے کے صرف 23سال میں اللہ کے فضل سے ایسی محنت کی کہ اپنی بچیوں کو زندہ دفن کردینے والی جاہل قوم ایسی باکردار ہوگئی کہ غیر ایمان والے اپنی جوان بچیوں کو تحفظ کی خاطر صحابہ ؓ کے گھر میں چھوڑجانے کو غلط نہیں سمجھتے تھے۔اور انصاف کا یہ عالم کہ حضرت عمر کے دور میں شیر اور بکری ایک گھاٹ سے پانی پیتے تھے اور شیر میں یہ مجال نہیں تھی کہ وہ بکری پر حملہ کرتا۔ اندھیری رات میں ماں بچی سے کہتی کہ دودھ میں پانی ملادے خلیفہ تو نہیں دیکھ رہے ہیں تو ایمان کی طاقت سے سرشار بچی کہتی ہے کہ ماں امیر المومنین نہ دیکھیں تو کیا ہوا میرا تمہار اور امیر المومنین کا رب تو ہمیں دیکھ رہا ہے۔ اور میں کیسے دودھ میں پانی ملانے والا دھوکے کا کام کر سکتی ہوں۔ یہ وہ حالات تھے جوحضور اکرم ﷺ کی دعوت کے بعد عام مسلمانوں کے تھے لیکن زمانہ گذرنے کے ساتھ شیطان نے اپنا کام کرنا شروع کردیا۔ لوگ دین اور اسلام کی تعلیمات سے دور ہونے لگے۔ اور مسلمان جن کی آدھی دنیا پر حکومت تھی۔ آہستہ آہستہ زوال پذیر ہونے لگے۔ ایسے زوال آمادہ دور میں مسلمانوں کی دنیاوی اور اخروی کامیابی کا واحد حل یہی ہے کہ وہ مخبر صادق حضرت محمد ﷺ کی سنتوں کو اپنی زندگی میں لائیں۔ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھا م لیں۔ اور کفر و الحاد ترک کریں۔ لیکن دنیا اور مادہ پرستی کی دعوت اس قدر عام ہے کہ دین غالب ہونے کے بجائے مغلوب ہورہا ہے۔ مسلمان کو پتہ ہی نہیں کہ اس کی پیدائیش سے موت تک زندگی کے ہر لمجے‘ ہر موڑ اور ہر منزل پر اللہ کا حکم کیا ہے اور رسول اللہ ﷺ کا مبارک طریقہ کیا ہے۔ اللہ نے قران کریم کی قیامت تک حفاظت کا ذمہ لیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کرم اور فضل کیا کہ اللہ کے رسول ﷺ کے خلوت اور جلوت غرض زندگی کے ہر پہلو کو سیرت پاک اور سنت نبوی ﷺ کے طریقو ں کو قران و حدیث میں محفوظ کردیا۔حضور اکرم ﷺ کی سیرت پاک کے کئی پہلو ہیں جن کا اعادہ اس ماہ میں خصوصیت سے اور زندگی بھرحسب ضرورت ہونا ضروری ہے۔ حضور اکرم ﷺ کے اخلاق حسنہ‘سماجی زندگی ٬گھریلو زندگی‘ازواج مطہرات کے ساتھ روابط‘سیاسی زندگی‘دین اسلام کی دعوت‘غزوات کے دوران عمل‘کفار کے ساتھ طرز عمل‘طب نبوی ﷺ اور پیدائیش سے لے کر موت تک انسانی زندگی کے ہر پہلو پر آپ ﷺ کی سیرت پاک انسانوں کے لئے مشعل راہ ہے۔حضور اکرم ﷺ کی سیرت پاک کا ایک روشن ستارہ آپﷺ کے مبارک اخلاق ہیں۔سورہ قلم کی آیت نمبر ۴ میں اللہ پاک کا ارشاد ہے کہ”و انک لعلی خلق عظیم(اور آپ کے اخلاق بہت اعلیٰ ہیں)سارا قران ہی آپ ﷺ کا اخلاق ہے۔انسانی زندگی عمل سے عبارت ہے۔ انفرادی طور پرانسان کی سیرت اس کے اخلاق و کردار سے ظاہر ہوتی ہے اور اجتماعی طور پر معاشر ت ‘تہذیب و تمدن اور بین الاقوامی تعلقات کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔زندگی کے ان انفرادی اور اجتماعی دو دائروں میں اگر زندگی مثالی گذرے تو وہ اللہ کی مرضی اور حضوراکرم ﷺ کی سیرت پاک کے مطابق ہوگی۔ اور اللہ کے ہاں پسندیدہ ہوگی۔ دنیا کے انسانوں کو مثالی شخصیت کی تلاش تھی اور وہ مثالی شخصیت حضور اکرم ﷺ ہیں جن کے اخلاق سب سے افضل و اعلیٰ ہیں۔جنہوں نے انسانیت کی اعلیٰ و ارفع مثالیں پیش کیں۔ ایک خاتون مسلسل آپ ﷺ کی ذات اقدس پر کچرا ڈالتی تھی ۔ اس خاتون سے آپﷺ نے بہتر معاملہ فرمایا۔ تو وہ قبولیت اسلام کی دولت سے مالا مال ہوئی۔حضور اکرم ﷺ کی ذات اقدس سراپا اعلیٰ اخلاق و کردار کی مالک تھی اور اس روئے زمین پر آپﷺ سے ذیادہ کسی اور نے بہتر انسانی اخلاق کی مثال پیش نہیں کی۔ واقعہ معراج آپﷺ کی سیرت میں چمکتا ایک درخشاں ستارہ ہے۔ اس واقعہ کی تصدیق پر حضرت علی ؓ کو صدیق کا لقب ملا۔ قران شریف آپﷺ کا ایسا عظیم معجزہ ہے جو قیامت تک باقی رہے گا۔ دیگر انبیا علیہ السلا م کو ملنے والے معجزے ان کی حیات میں رہے لیکن آپﷺ کا معجزہ قران کریم قیامت تک باقی رہے گا۔ سیرت النبی ﷺ کا ایک اہم پہلو معاشرتی اور تمدنی زندگی ہے۔ آپ ﷺ نے واضح کردیا کہ نکاح سنت ہے اس سنت کو اپنی عفت کو بچانے اور نسل انسانی کو بڑھانے کے لئے اختیار کیا جائے۔اگر کسی میں نکاح کی گنجائیش نہ ہو تو اس سے کہا گیا کہ وہ ذیادہ سے ذیادہ روزے رکھا کرے تاکہ اس کی نفسانی خواہشات پر قابو پایا جاسکے۔ نکاح کے لئے لڑکی میں دینداری اور حسب نسب دیکھنے کے لئے کہا گیا۔ اللہ کے رسول ﷺ کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ نکاح کو آسان بنا تاکہ زنا مشکل ہوجائے۔شادی کا ایک مقصد جیسا کہ کہا گیا حصول اولاد ہے۔چنانچہ بچوں کے بارے میں آپﷺ کی سنت یہ ہے کہ جب بچہ پیدا ہو تو اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کے کلمات کہے جائیں ساتویں دن بچے کا عقیقہ کیا جائے بال نکالے جائیں اور اس کا اچھا سا اسلامی نام رکھا جائے۔ لڑکا ہو تو اس کی ختنہ کی جائے ۔ بچہ جب بات کرنے لگے تو اسے پہلے کلمہ سکھایا جائے۔ جب اس کی تعلیم کا مرحلہ در پیش ہو تو اس کی دینی تعلیم کا اہتمام کیا جائے۔ دنیاوی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم لازمی ہے۔ بچہ جب سات سال کا ہو تو اسے نماز کی ترغیب دی جائے اور جب وہ بالغ ہو تو اس پر نماز کے لئے سختی کی جائے۔اس کی بہتر تربیت کی جائے۔ اللہ کے رسول نے جوان بچوں کا جلد نکاح کردینے کی ترغیب دی ہے۔ آپﷺ کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ مسلمانوں کو تین کاموں میں جلدی کرنی چاہئے۔ایک جب نماز کا وقت ہو تو فوری نماز اد ا کی جائے۔ دوسرے جب اولاد جوان ہو تو اس کی فوری شادی کی جائے۔ تیسرے جب کسی کی موت واقع ہو تو اسے فوری دفن کرنے کا اہتمام کیا جائے۔اسی طرح اللہ کے رسول ﷺ نے مسلمانوں کو کھانے پینے‘لباس‘رہن سہن‘والدین‘رشتہ داروں ‘پڑوسیوں‘غیر مسلموں اور دیگر انسانوں کے ساتھ برتا کے حقوق سکھائے۔ لوگوں کو دین کی دعوت پیش کرنے اور مسلمانوں کو دین پر عمل کرنے کی ترغیب دی۔ آپ ﷺ کی سیرت پاک کا منشاءیہی ہے کہ ساری دنیا میں اللہ کا کلمہ بلند ہو۔ لوگ شیطان کے طریقے پر چلنے کے بجائے اللہ کے حکم کے تابع رہیں۔آج مسلمانوں کا یہ عالم ہے کہ امت کا بیشتر طبقہ آپ ﷺ کے حالات زندگی اور سیرت کے روشن پہلوں سے واقف نہیں۔ لوگوں کو دنیا والوں کے حالات اچھے اور برے کی خبر ہے لیکن نہیں معلوم تو آقاﷺ کے حالات نہیں معلوم۔ یہ نہیں معلوم کے آقا نے زندگی میں کبھی دو وقت کی روٹی پیٹ بھر کر نہیں کھائی اور ہر لمحہ امت مسلمہ کی فکر کرتے رہے کہ کیسے یہ امت کامیاب ہوجائے اور اس امت کا بیڑا پار ہوجائے۔ معراج کے موقع پر آپﷺ نے نمازوں میں تخفیف کرائی اور اس بات کو یقینی بنایا کہ امت پانچ نمازیں پڑھے گی تو اسے پچاس نمازوں کو ثواب ملے گا۔ آپﷺ کو معراج کی سعادت نصیب ہوئی اللہ سے ہم کلامی کا شرف ملا تو آ پ ﷺ کی امت کو یہ انعام ملا کہ اگر آپﷺ کا امتی نماز پڑھتا ہے تو وہ ایسا ہے جیسے اللہ کے دربار میں کھڑا ہے اور اللہ سے بات کر رہا ہے۔ یہ نماز کے حوالے سے امت محمدیہ ﷺ کو ملنے والا ایسا انعام ہے جو دیگر امتوں کو نہیں ملا۔ چنانچہ اس بات کی ضرورت ہے کہ میلاالنبی ﷺ کی محافل اور جلسوں میں آپﷺ کی سیرت کے تمام گوشوں کو منظر عام پر لایا جائے اور امت کو اس بات پر راغب کرایا جائے کہ امت نبی ﷺکی نام لیوا بھی ہو اور نبی ﷺ کی سنتوں پر عمل پیرا بھی۔ اللہ کی مدد کے وعدے زبانی دعووں سے نہیں بلکہ عمل سے ہیں۔ جنگ بدر میں 313نہتے صحابہ ؓ کو اللہ کی مدد ایمان اور عمل صالح کی بدولت ملی تھی۔ آج مسلمان سمجھتے ہیں کہ انہیں بغیر عمل کے صرف عشق نبی ﷺ کے زبانی دعووں سے اللہ کی مدد ملے گی۔ یہ اللہ کی عادت نہیں ہے۔ اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ایمان اور عمل صالح کے ذریعے اللہ کی مدد کے طلب گار ہوں اور نبی ﷺ کو سنتوں سے اپنی زندگی کو آراستہ کریں۔میلاد النبی ﷺ کا یہی پیغام ہونا چاہئے۔اس کتاب کے دوسرے حصے میں حکیم محمد اختر صاحب کی مشہور زمانہ کتاب ” پیارے نبیﷺ کی پیاری سنتیں“ کا عکس بھی شامل کیا جارہا ہے تاکہ سیرت النبیﷺ کے ساتھ ساتھ مسلمان روز مرہ کی سنتوں سے بھی واقف ہوں اور ان پر عمل پیرا ہوں۔ اس کتاب کو مزید بہتر بنانے کے لئے تجاویز بھی پیش کی جاسکتی ہیں۔
حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم  حیات بابرکت ماہ و سال کے آئینے میں
(اللہم صلی علی محمد واعلی اعلی محمد وبارک وسلم)
                                                                            
          میلا دالنبی ﷺ کے جشن کے موقع پر دنیا کے سب سے مثالی انسان حضرت محمد مصطفیﷺ کے حالات زندگی اختصار کے ساتھ پیش کئے جارہے ہیں۔
          پیغمبر اسلام تاجدار مدینہ رحمت عالم شافع محشر نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ولاد ت با سعادت موسم بہار میں عرب کے شہر مکہ معظمہ میں 22اپریل 571ءم ۲ا۔ربیع الاول بروز پیر صبح صادق ہوئی۔ آپ ﷺ کا تعلق عرب کے قبیلہ قریش کے خاندان بنو ہاشم سے تھا۔آپ ﷺ کے آبا و اجداد میں سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام اور حضرت ابراھیم علیہ السلام تھے۔آپﷺ کے دادا کا نام عبد المطلب بن ہاشم اور نانا کا نام وہب عبد مناف تھا۔نبی کریم ﷺ کا خاندان سارے عرب میں نیکی ‘شرافت ‘عزت‘مہمان نوازی‘سخاوت اور اثر و رسوخ کے لئے مشہور تھا۔اور سارے عرب میں آپﷺ کے دادھیال اور ننھیال والوں کی عزت تھی۔پیارے نبی ﷺ کے والد کا نام حضرت عبدا للہ اور والدہ کا نام بی بی آمنہ تھا۔آپ ﷺ کے والد حضرت عبداللہ کا انتقال آپﷺ کی ولادت سے چند ماہ قبل ہوچکا تھا۔آپﷺ کے ولادت کے سال کو عام الفیل کا سال بھی کہتے ہیں ۔ کیونکہ اسی سال یمن کے ظالم بادشاہ ابرہہ نے خانہ کعبہ کو گرانے کے ارادے سے مکہ پر حملہ کیا تھا۔بعض روایات میں کہا جاتا ہے کہ آپﷺ کی ولادت با سعادت ۹ ربیع الاول کو ہوئی تھی۔ کیونکہ جس سال عام الفیل کا واقعہ ہوا تھا اس سال ماہ ربیع الاول کی ۹ تاریخ کو پیر دوشنبہ کا دن تھا ۲ا۔ ربیع الاول کو نہیں۔ لیکن ۲ا۔ربیع الاول کی تاریخ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب ﷺ کی اس دنیا میں آمد اور اس دنیا سے پردہ فرمانے کا دن ایک ہی یعنی ۲ا۔ربیع الاول رکھا تاکہ امت کو خوشی اور غم کے جذبے کا برابر احساس رہے۔ بہر حال آج ساری دنیا میں آپﷺ کی ولادت کی تاریخ ۲ا۔ربیع الاول ہی مروج ہے اور اسی دن جشن میلا النبیﷺ کا اہتمام کیاجاتا ہے۔
          آپ ﷺ کی ولادت کی خوشی میں دادا عبدالمطلب گود میں اٹھا کر آپﷺ کو خانہ کعبہ لائے۔ دعا کی ۔آپ ﷺ کا نام مبارک محمد ﷺ رکھا۔ جس کے معنی تعریف کیا جانے والے کے ہیں۔اور پیدائیش کے ساتویں دن عقیقہ کیا۔ اور سارے قبیلے کی دعوت کی۔آپ ﷺ کی ولادت کے بعد تین چار دن تک آپ ﷺ کی والدہ بی بی آمنہ نے آپ ﷺ کودودھ پلایا۔ اس کے بعدابو لہب کی کنیز ثوبیہ نے اور پھر دائی حلیمہ نے آپ ﷺ کو دودھ پلانے کی سعادت حاصل کی ۔ اس زمانے میں عرب میں رواج تھا کہ بچوں کو صحت کی خاطر دیہاتی علاقوں میں دودھ پلانے والیوں کو سال دوسال کے لئے دے دیا جاتا تھا۔آپﷺ کی پیدائیش کے آٹھویں دن دائی حلیمہ مکہ آئیں۔ ان کی اونٹنی کمزور تھی و ہ اس دن بچوں کو لینے کے لئے آخر میں پہونچیں۔ تب تک دولت مند گھرانوں کے بچوں کو دوسری خواتین نے حاصل کر لیا تھا۔ دائی حلیمہ کو عبداللہ اور آمنہ کے لال حاصل ہوئے۔ لیکن آپﷺ کی برکت کا یہ عالم تھا کہ جب آپﷺ کو اونٹنی پر بٹھا کر لے جارہی تھیں تب اونٹنی تیز رفتاری سے دوڑنے لگی اور دوسرے لوگ دیکھتے رہ گئے کہ یہ کیا ماجرا ہے کہ حلیمہ کی کمزور اونٹنی اچانک تیز رفتار کیسے ہوگئی۔یہ آپﷺ کی برکت اور معجزات کا ظہور تھا۔ دائی حلیمہ کے گاں میں بھی آپ ﷺ کی برکات کا نزول تھا۔ اور حلیمہ کی کمزور اور ناتواں بکریاں ذیادہ دودھ دینے لگی تھیں۔دائی حلیمہ آپ ﷺ کو بی بی آمنہ سے ملانے کے لئے ہر چھ ماہ میں ایک مرتبہ آپﷺ کو مکہ معظمہ لاتیں اور پھر واپس لے جاتیں۔دو سال تک آپﷺ دائی حلیمہ کے ساتھ رہے۔ تاہم بی بی آمنہ نے محسوس کیا کہ بنو سعد میں آپﷺ کی صحت اچھی رہ رہی ہے تو انہوں نے آپﷺ کو مزید کچھ عرصے کے لئے دائی حلیمہ کے ساتھ روانہ کردیا۔دو سال بعد آپﷺ کی مکہ معظمہ واپسی ہوئی۔ جہاں دوسال تک آپﷺ اپنی والدہ کے ساتھ رہے۔پھر والدہ محترمہ اور کنیز ام ایمن کے ساتھ مدینے کا سفر کیا۔ وہاں ایک ماہ قیام رہا۔ واپسی کے سفر میں بی بی آمنہ شدید بیمار ہوگئیں۔ اور راستے میں ”ابوا“ کے مقام پر انتقال کرگئیں۔ ان کی تدفین اسی مقام پر ہوئی۔ اس طرح چھ سال کی عمر میں آپﷺ کے سر سے والدین کا سایہ اٹھ چکا تھا۔ اور آپﷺ کی پرورش دادا عبدالمطلب اور بعد میں چچا ابو طالب نے کی۔جب آپﷺ کی عمر آٹھ سال ہوئی تو دادا بھی گذر گئے ۔جنہوں نے بیٹے سے ذیادہ اپنی اس ہر دل عزیز پوتے کی پرورش کی تھی۔ ابو طالب غریب تھے۔ لیکن جب انہوں نے آپ ﷺ کو اپنی پرورش میں لے لیا تو آپﷺ کی بر کت سے ان کے گھر میں برکت آگئی۔ جب آپﷺ کی عمر بارہ سال ہوئی تو چچا ابو طالب آپ ﷺ کو تجارتی قافلے کے ساتھ شام لے گئے۔ اس زمانے میں عربوں کا ذریعہ معاش تجارت ہی تھا۔ جس کے لئے و ہ اکثر شام وغیرہ ممالک جایا کرتے تھے۔جب ابو طالب کا قافلہ بصریٰ پہونچا تو ایک عیسائی راہب جس کا نام بحیرا تھا اس نے آپﷺ کو دیکھ کر پیشن گوئی کی کہ یہ دنیا کے سردار ہیں۔ اللہ کے ہونے والے رسول ہیں۔اللہ انہیں ساری دنیا کے لئے رحمت بنا ئے گا۔ابو طالب کے دریافت کرنے پر عیسائی راہب نے کہاکہ ہماری مذہبی کتابو ں میں آخری زمانے میں آنے والے نبی کی جو پیشن گوئی کی گئی ہے اور جو نشانیاں دکھائی گئی ہیں۔ وہ اس بچے میں موجود ہیں۔ جس میں سے ایک نشانی آ پ ﷺ کی پشت پر موجود مہر نبوت بھی ہے۔ راہب نے ابو طالب کو مشورہ دیا کہ محمد ﷺ کوواپس مکہ بھیج دیں اور ملک شام نہ لے جائیں وہاں یہودیوں سے آپﷺ کی جان کو خطرہ ہوسکتا ہے۔ کیونکہ انہیں بھی آخری زمانے میں آنے والے نبی کی نشانیاں معلوم ہیں اور شائد وہ نہیں چاہیں گے کہ بنی اسرائیل کے علا وہ کسی اور قبیلے سے دنیا کا نیا نبی آئے۔جب آپﷺ کی عمر 15برس ہوئی تو قریش اور قیس قبیلے کے درمیان فجار کی جنگ ہوئی۔ جس کے بعد پانچ قبیلوں کے درمیان حلف الفضول کا معاہدہ ہوا۔اس معاہد میں شرکت پر آپ ﷺ کو بہت خوشی محسوس ہوئی تھی۔خانہ کعبہ کی تعمیر کے دوران قبیلے کے سرداروں میں اس بات پر لڑائی ہوگئی تھی کہ خانہ کعبہ کی دیوار میں حجر اسود کون لگائے۔ لیکن آپ ﷺ نے اپنی فراست اور تدبر سے قبیلے والوں سے کہا کہ ایک چادر لا۔ اس چادر میں حجر اسود رکھا گیا۔چاروں قبیلوں کے سرداروں سے کہا کہ وہ چادر کا کونا پکڑیں ۔ جب پتھر کو خانہ کعبہ کے قریب لایا گیا تو آپﷺ نے اپنے ہاتھ سے اٹھا کر پتھر کو دیوار میں رکھ دیا۔ اور معاملے کو خوش اسلوبی سے سر انجام دیا۔ بچپن ہی سے آپﷺ کے اعلیٰ اخلاق‘سچائی‘پرہیز گاری‘نیکی صبر ‘شکر ‘حیا ‘خیر خواہی وغیر ہ کی خوبیاں ظاہر ہونی شروع ہوگئی تھیں۔ اور سارے عرب میں آپ ﷺ صادق اور امین کے لقب سے جانے جاتے تھے۔ ابتدائی زمانے میں دیگر انبیا کی طرح آپﷺ نے بھی بکریاں چرائی تھیں۔ لیکن چچا کے ساتھ سفر کرنے کے بعد آپﷺ نے تجارت کی۔ اور مکہ کی دولت مند خاتون بی بی خدیجہ کا مال لے کر ایک مرتبہ پھر شام کے سفر پر روانہ ہوئے۔ او ر امانت داری اور سچائی کے ساتھ تجارت کی اس سفر میں آپﷺ نے خوب منافع حاصل کیا۔اس سفر میں خدیجہ کا غلام میسرہ بھی تھا اس نے آپﷺ کی امانت داری سچائی اور دیگر خصوصیات کی تعریف کی۔ یہ باتیں سن کر بی بی خدیجہ آپﷺ سے کافی متاثر ہوئیں۔ وہ مکہ کی ایک رئیس مال دار خاتون تھیں۔ جب آپ ﷺ کی عمر 25سال ہوئی تو انہوں نے آپﷺ سے اپنے نکاح کا پیغام بھیجا۔ قریش کے قبیلے والے اور بی بی خدیجہ کے قبیلہ والوں کو یہ پیغام پسند آیا۔ اور دونوں کا نکا ح ہو گیا۔ اس وقت بی بی خدیجہؓ کی عمر 40سا ل تھی۔ آپﷺ کی اولاد میں پہلے حضرت قاسم پیدا ہوئے ۔ پھر بیٹی زینب رقیہ کلثوم اور فاطمہ پیدا ہوئیں۔ پھر عبداللہ پیدا ہوئے۔ یہ تمام اولادیں بی بی خدیجہ کے ساتھ نکاح سے پیدا ہوئیں۔ایک بیٹے ابراھیم بھی پیدا ہوئے جن کی ماں کا نام ماریہ قریطہ ؓ تھا۔ آپﷺ کے سبھی بیٹے کم عمری میں انتقال کر گئے ۔ جب کہ بیٹیوں نے نبوت کا زمانہ دیکھا۔ بیٹیوں میں تین بیٹیاںآپﷺ کی زندگی میں ہی وفات پاگئیں ۔البتہ بی بی فاطمہ کا انتقال آپﷺ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے چھ ماہ بعد ہوا۔بچپن ہی سے اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی راست تربیت کی تھی ۔ اس لئے آپ ﷺ دیگر بچوں کی طرح کھیل کود میں شرکت نہیں کرتے تھے اور قبیلے والوں کی طرح میلوں وغیرہ میں نہیں جاتے تھے ۔ اس وقت بت پر ستی عام تھی اورکعبةاللہ میں 360بت رکھے ہوئے تھے۔اس وقت عربوں میں جہالت بہت چھائی ہوئی تھی۔ لوگ عزت کی خاطر اپنی بچیوں کو زندہ دفن کردیتے تھے چھوٹی چھوٹی بات پر برسوں لڑائی ہوتی تھی۔آپﷺ اپنا ذیادہ تر وقت غور و فکر میں لگاتے تھے۔ کہ اس زمین ‘سورج ‘چاند تاروں اور دیگر مخلوقات کا خالق کون ہے۔ یہ بت تو خدا نہیں ہو سکتے کیونکہ یہ خود کسی کے ہاتھ بنے ہوئے ہیں۔ اس دنیا کا خالق کو ئی بڑی قدرت والا ہی ہوگا۔آپ ﷺ اکثر مکے سے کچھ فاصلے پر واقع پہاڑی جبل نور کے غار حرا میں تشریف لے جاتے اپنے ساتھ کھانے کے لئے ستو لے جاتے اور وہا ں بیٹھ کر غور و فکر کرتے کہ اس دنیا کا بنانے والا کون ہے۔ اس زمانے میں آپﷺ کو سچے خواب دکھائی دینے لگے تھے۔ یہ نبوت ملنے کے آثار تھے۔ جب محمد ﷺ کی عمر 40سال تھی اور آپﷺ مراقبے میں اکثر غار حرا میں بیٹھا کرتے اور وہاں سے دکھائی دینے والے خانہ کعبہ کو دیکھتے رہتے تو ایک دن رمضان کے مہینے میں پیر کے دن اللہ کے فرشتے حضرت جبرئیل علیہ السلام غار حرا تشریف لائے۔ اور اللہ کی جانب سے لایا ہوا حق کا پیغام سنایا اور کہا کہ پڑھو۔آپﷺ نے کہا کہ میں پڑھنا نہیں جانتا۔اور حقیقت بھی یہ ہے کہ آپﷺ کی زبانی دنیا والوں کو کلام الٰہی سنانے کی خاطر اللہ نے یہ گوارا نہیں کہا کہ عربوں کے ہاں آپﷺ دنیاوی علوم سیکھیں۔ اس زمانے میں عرب شاعری اپنی فصاحت و بلاغت کے لئے مشہور تھی ۔ اور عرب کے مشہور شاعر کا قصیدہ منتخب کرکے ایک سال کے لئے خانہ کعبہ کی دیوار پر لٹکا دیا جاتا تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالٰی ہی آپ ﷺ کا راست معلم تھا اگر کسی دنیاوی معلم کے ہاں آپﷺ نے تعلیم حاصل کی تو معلم کا درجہ آپﷺ سے نعوذ باللہ بڑھ جاتا۔ جب کہ آپ ﷺ کا درجہ اللہ کے بعد دنیا میں سب سے اعلیٰ ہے۔ بہر حال آپﷺ نے جب جبرئیل علیہ السلام سے کہا کہ میں پڑھنا نہیں جانتا تو انہوں نے ایک دو اور تین مرتبہ آپﷺ کو دبوچا اور کہا کہ پڑھو تیسری مرتبہ انہوں نے کہا کہ پڑھو اس رب کے نام سے جنہوں نے انسان کو لوتھڑے سے پیدا کیارب بڑا کریم ہے۔اس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا۔انسان کو وہ بات بتائی جو انسان نہیں جانتا۔یہ قران کی پہلی وحی تھی جو آپﷺ پر نازل ہوئی تھی۔ یہ وہی قران ہے جس کی آیتوں کے بارے میں کہا گیا کہ اس کو اگر کسی پہاڑ پر اتارا جاتا تو وہ اس کے بوجھ سے ریزہ ریزہ ہوجاتا۔ قران کی آیتوں کے ملنے کے بعد آپﷺکانپ رہے تھے۔ گھر آکر بی بی خدیجہ ؓ سے کہا کہ مجھے اُڑھادو ۔جب آپﷺ کو سکون حاصل ہوا تو انہو ں نے غار حرا میں پیش آئے واقعہ کو بی بی خدیجہ کو سنایا تو انہوں نے آپﷺ کو تسلی دی کہ آپﷺ تو نیک ہیں اللہ آپﷺ کو رسوا نہیں کرے گا۔اس کے بعد بی بی خدیجہؓ آپﷺ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جنہوں نے اس واقعے کوسن کر کہا کہ یہ تو وہی فرشتہ ہے جوحضرت موسی علیہ السلام پر وحی لایا تھا ۔ اگر میں زندہ رہا تو آپ کی اس وقت مدد کروں گا جب آپﷺ کی قوم آپ کو اس شہر سے نکال دے گی۔
          حضور اکرم ﷺ پر غار حرا میں پہلی وحی کے نزول کے کوئی چھ ماہ بعد دوسری مرتبہ وحی کا نزول ہوا۔ اس درمیان آپ ﷺ شوق کے ساتھ فرشتے کاانتظار کرتے تھے کہ وہ پھر سے آئے اور اللہ کا پیغام سنائے۔چھ ماہ بعد حضرت جبرئیل علیہ السلام دوبارہ وحی لے کر نازل ہوئے ۔ اس دفعہ سورہ مدثر کی آیات ناز ل ہوئیں۔جس میں آپﷺ کو ہدایات دی گئیں کہ آپ لوگوں میں دین اسلام کی تبلیغ کریں۔ انہیں ایک اللہ کے ہونے اور اسی کی عباد ت کرنے اور آپﷺ کو اللہ کا نبی و رسول اور پیغمبر ہونے کی بات بتائیں اور لوگوں کو ان کی غلطیوں سے آگا ہ کریں۔اس وحی کے آنے کے دوسرے دن آپ ﷺ کو ہ صفا پر چڑھے اور عرب کے دستور کے مطابق اہم اعلان کی طرح لوگوں کو بلایا اور کہا کہ” اگر میں یہ کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے دشمن کا لشکر ہے جو تم پر حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم میری بات کو مانو گے ۔تو لوگوں نے کہا کہ ہا ں ہم آپ کی بات مانیں گے کیونکہ ہم نے آپ کو سچا پایا ہے“۔ تب آپﷺ نے فرمایا کہ میں ایک اللہ کابھیجا ہوا رسول ہوں ۔ہمیں ایک اللہ کی عبادت کرنی ہے جو ساری دنیا کا مالک و خالق ہے۔ اور اگر ہم اللہ کی بات نہیں مانیں گے تو دردناک عذاب میں ڈالے جائیں گے۔اور میں تمہیں اس دردناک عذاب سے بچانے کے لئے بھیجا گیا ہوں۔ اس مجمع میں آپﷺ کا چچا ابو لہب بھی تھا ایک خدا کی بات سن کر اسے غصہ آیا۔ کیوں کے عرب کے لوگ 360بتوں کی پوجا کرتے تھے۔ اب آپﷺ نے لوگوں کے درمیان دین اسلام کی تبلیغ شروع کردی۔ اللہ نے جنہیں ہدایت دی وہ آپﷺ کی بات ماننے لگے۔عورتوں میں سب سے پہلے آپﷺ کی بیوی حضرت خدیجہ ؓ ‘مردوں میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ‘بچوں میںحضرت علیؓ اور غلاموں میں زید بن حارثہ ؓ نے اسلام قبول کیا۔ اور آپﷺ کی کوشش سے ابتداءمیں 40لوگ مسلمان ہوئے۔ لیکن ان لوگوں کو عربوں کی سختیا ں برداشت کرنی پڑتی تھیں۔ عرب ہر طرح سے مسلمانوں کی مخالفت کرتے تھے اور انہیں سخت اذیتیں اور تکالیف دیتے تھے۔ابو جہل اور ابو لہب نے ظلم کی انتہا کی۔ کلمہ پڑھنے والے مسلمانوں کو گرم ریت پر لٹا کر مارا جاتا تھا۔ پیروں میں بیڑیاں ڈال کر گھسیٹا جاتاتھا۔ابو لہب اور ابو جہل حضور اکرمﷺ کے چچا تھے لیکن اللہ نے ان کی قسمت میں ہدایت نہیں لکھی تھی اس لئے وہ مسلمانوں پر مظالم میں پیش پیش رہتے تھے۔ابو لہب کی بیوی ام جمیل بھی مظالم اور سازشوں میں پیش پیش رہتی تھی۔ اللہ نے ابو لہب کا برا انجام کیا جس کا ذکر سورہ لہب میں آیا ہے۔حج کے زمانے میں کفار نے یہ تدبیر کی کہ آنے والے لوگوں کوآپﷺ کی دعوت سے روکنے کے لئے کہنے لگے کہ آپﷺ جادوگر یا کاہن ہیں۔ لیکن کفار کے اس غلط پروپیگنڈے کاالٹا اثر ہوا اور لوگ اس اشتیاق میں کہ آخر حضور ﷺ کیا کہتے ہیں آپﷺ سے ملنے لگے اور اسلام قبول کرنے لگے۔جب مکے میں اسلام کی دعوت کے پانچ سال ہوگئے اور قریش کی سختیاں اور مظالم بڑھنے لگے تو آپﷺ نے مسلمانوں سے کہا کہ حبشہ کا بادشاہ شاہ نجاشی انصاف پسند بادشاہ ہے ۔ تم لوگ وہا ں ہجرت کر جا۔مسلمانوں کا پہلا قافلہ حبشہ کی طرف ہجرت کر گیا۔ قریش کو اطلاع ملی تو انہوں نے مسلمانوں کا پیچھا کیا لیکن صحابہؓ سمندر سے آگے بڑھ چکے تھے۔ایک مرتبہ کعبہ کے قریب آپﷺ نے کفار کے روبرو سورہ نجم کی آیات تلاوت کیں۔ اور آیت سجدہ ”فاسجدو للہ واعبدو“ پر سجدہ کیا تو سبھی لوگ سجدہ ریز ہوگئے۔نبوت کے چھٹے سال میں حضرت حمزہؓ اور حضرت عمر ؓ ایمان لائے۔ جس سے اسلام کو بہت تقویت ملی۔ حضرت عمر ؓ کے قبول اسلام کا بھی عجیب واقعہ ہے۔ جب انہیں پتہ چلا کہ ان کی بہن نے اسلام قبول کرلیا تو وہ اسے قتل کرنے کے ارادے سے گئے۔ وہاں ان کی بہن اور اس کے شوہر نے قران کی آیات سنائیں جس کا حضرت عمر پر ایسا اثر ہوا کہ انہوں نے فوراًاسلام قبول کر لیا اور حضور اکرم ﷺ کے روبرو اس کا اظہار کردیا۔ اللہ کے رسول ﷺ حضرت عمرؓ کے قبول اسلام سے بہت خوش ہوئے۔حضرت عمرؓ کے مسلمان ہونے پر قریش اور کفار کے حوصلے پست ہونے لگے۔ انہوں نے حضور اکرم ﷺ کو قریش کی سب سے خوبصورت لڑکی سے نکاح کرانے یا ڈھیر ساری دولت یا سرداری دینے کا پیشکش کیا کہ وہ اپنے دین سے پھر جائیں ۔ لیکن اللہ کے رسول ﷺ نے کفار پر واضح کردیا کہ اگر کفار میرے ایک ہاتھ میں سورج اور ایک ہاتھ میں چاند بھی لاکر رکھ دیں تو میں دین سے نہیں پھروں گا۔ عرب نے ایک غیر انسانی حرکت کی اور آپﷺ کے خاندان والوں بنو ہاشم اور بنو مطلب سے سماجی بائیکاٹ کردیا جسے شعب ابی طالب کہتے ہیں۔ اس سے آپﷺ کے اہل خاندان ایک گھاٹی میں محصور ہوگئے۔ اور تین سال تک اس بائیکاٹ کے اثر سے تکلیف میں مبتلا رہے۔بی بی خدیجہ ؓ اور ابو طالب کے انتقال ہوگیا۔یہ آپﷺ کی عمر کا پچاسواں سال تھا اسے عام الحزن غم کا سال کہا جاتاہے۔عرب کے سمجھ دار لوگوں نے کفار اور مسلمانوں کے مابین چلے آرہے سماجی بائیکاٹ کو ختم کرایا۔ آپﷺ کے اہل خاندان پریشانی کی حالت میں مکہ واپس آئے۔آپﷺ نے طائف کا سفر کیا۔ وہاں پر لوگوں نے شریر بچوں کو آپﷺ کے پیچھے لگا دیا۔ لوگوں کے پتھر سے آپﷺ زخمی ہوئے ۔ آسمان سے آنے والے فرشتے نے اجازت طلب کی کہ طائف کی بستی کو پلٹ دیں۔ لیکن رحمت اللعالمین ﷺ نے کہا کہ مجھے امیدہے کہ یہ نہیں تو ان کی آنے والی نسلیں ضرور اسلام قبول کریں گی۔آپﷺ  اطراف کے قبیلوں کو بھی دین کی دعوت پیش کرتے رہے۔ یثرب کے قبائیل نے آپﷺ کا دین قبول کیااور واپس جا کر دین کو عام کرنا شروع کیا۔اسی سال آپﷺ کی زندگی کا اہم واقعہ معراج رونما ہوا۔اللہ نے آپﷺ کو آسمان دنیا کی سیر کرائی۔جنت دوزخ کامشاہدہ کرایا۔بات چیت کا شرف بخشا اور واپسی میں مسلمانوں کے لئے نماز کاتحفہ دیا کہ اگرامت کے لوگ پانچ وقت نماز پڑھیں گے توانہیں پچاس نمازوں کا ثواب ملے گا اور یہ بھی کہا گیا کہ نماز مومن کی معراج ہے۔معراج کے واقعہ پر عرب لوگ مزید حیران ہوگئے اور آپﷺ سے سفر کی نشانیاں دریافت کرنے لگے۔ آپﷺ نے سبھی نشانیاں سنادیں۔ حضرت ابوبکر ؓ نے اس واقعہ کی تصدیق کی تو آپ کو صدیق کا لقب ملا۔واقعہ معراج کے بعد یثرب کے مسلمانوں نے آپﷺ سے خواہش ظاہر کی کہ وہ مکہ چھوڑ کر یثرب آجائیں۔ اللہ کے حکم پر آپﷺ نے مسلمانو ںکو یثرب کی ہجرت کاحکم فرمایا اور آخر میں آپﷺ حضرت ابوبکرؓ کے ہمراہ رات کے وقت روانہ ہوئے اور حضرت علی ؓ سے کہا کہ وہ لوگوں کی امانتیں لوٹا کر آئیں۔ حضرت علیؓ آپﷺ کے بستر مبارک پر سو گئے۔ کفار آپﷺ کو قتل کرنے کے ارادے سے آئے لیکن انہیں ناکامی ہوئی۔ کفار نے آپﷺ کا پیچھا کیا۔ غار ثور میں اللہ نے آپﷺ کی حفاظت کی اور کفار غار کے دامن تک جاکر ناکام لوٹ آئے۔یثرب میں مسلمان آپﷺ کا بے چینی سے انتطار کر رہے تھے۔ آپﷺ براہ قبا یثرب پہونچے ۔ اس علاقے کا نام بعد میں مدینہ ہوگیا۔مدینہ میں لوگوں نے آپﷺ کا شاندار طریقے سے استقبال کیا اس طرح دین کی خاطر گھر چھوڑنے والے مہاجر کہلائے اور دین کی خاطر گھر چھوڑنے والوں کی مدد و نصرت کرنے والے اہل مدینہ انصار کہلائے۔سب لوگ آپﷺ کی مہمانی کا شرف حاصل کرنا چاہتے تھے ۔ لیکن آپﷺ نے کہا کہ میری اونٹنی اللہ کے حکم سے جہاں رکے گی میں وہیں ٹہروں گا۔ چنانچہ آپﷺ کی مہمانی کا شرف حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کے حصے میں آیا۔آپﷺ نے مسلمانوں کے لئے مسجد نبوی ﷺ کی تعمیر کی۔ ساتھ میں ازواج مطہرات کے مکانات کی تعمیر ہوئی۔مسجد نبوی کے چبوترہ صفہ پر ہمیشہ صحابہؓ کا ایک گروہ دین سیکھا کرتا تھا۔اور کچھ لوگ تجارت کرتے تھے۔ آپﷺ نے مہاجروں اور انصاروں کے درمیان آپسی محبت اور بھائی چارے کو عام کیا۔ میثاق مدینہ معاہدہ کیا گیا ۔ جس کی رو سے مسلمان مل کر رہیں گے۔ اس طرح مدینہ ایک اسلامی ریاست بن گیا۔ آپﷺ نے دین کی دعوت کو عام کرنا شروع کیا۔ بادشاہوں کو خط لکھ کر اسلا م کی دعوت پیش کی۔ہجرت کے واقعہ سے اسلامی سنہ تاریخ ہجری کا آغاز ہوا۔ دو ہجری میں مسلمانوں کو تبدیلی قبلہ کا حکم ملا کہ وہ بیت المقدس کے بجائے خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھا کریں۔ اسی سال ماہ رمضان کے روزے فرض ہوئے ۔ زکوٰة کی ادائیگی کا حکم ملا۔ اور عید کے موقع پر صدقہ فطر کا حکم بھی دیا گیا۔اسی سال بی بی فاطمہؓ کی شادی حضرت علی ؓ سے ہوئی اور غزوہ بدر بھی اسی سال ہوا۔حضور اکرم ﷺنے بذات خود جس لڑائی میں شرکت کی ہو اسے غزوہ کہتے ہیں اور جس لڑائی میں آپﷺ نے کسی صحابی ؓ کو کمانڈر بنا کر بھیجا ہو تو اسے سریہ کہا جاتاہے۔ اسلامی تاریخ میں 21تا 27غزوات ہوئے۔ مخالفین کہتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا ۔لیکن اسلامی جنگوں میں انسانی خون کے احترام کا یہ عالم ہے کہ ان جنگو ں میں کفار کے 900سے ذائد اور مسلمانوں کے چند سو لوگ مرے۔ لیکن اسلامی پیغام دعوت اور افہام و تفہیم اور آپﷺ اور ان کے صحابہ کے اعلی اخلاق سے دنیا کے دیگر حصوں میں تیزی سے پھیلنے لگا۔غزوہ بدر میں 313نہتے صحابہؓ نے ایک ہزار کفار کا مقابلہ کیا۔ 17رمضان کو ہونے والے اسے غزوہ میں اللہ کی مدد آئی ۔مسلمانو ں کو فتح ہوئی۔ابو جہل اور دیگر ستر کافر مارے گئے۔چودہ مسلمانوں کو شہادت ملی۔سنہ تین ہجری میں غزوہ احد پیش آیا۔ اللہ کے رسول ﷺ کا حکم نہ ملنے پر جیتی ہوئی جنگ مسلمان ہار گئے۔ ستر صحابہؓ شہید ہوئے۔آپﷺکے دو دانت شہید ہوئے۔ اس سال حضرت حسن ؓ کی پیدائیش ہوئی۔پانچ ہجری میں غزوہ خندق ہوا۔ چھ ہجری میں صلح حدیبیہ ہوئی۔ جس کے تحت آپﷺ نے حج نہیں کیا۔اس صلح سے حضر ت خالد بن ولید اور عثمان بن طلحہؓ ایمان لائے۔سنہ آٹھ ہجری میں کفار نے صلح کی خلاف ورزی کی۔ ماہ رمضان میں آپﷺ نے دس ہزار صحابہؓ کے ساتھ مکہ کا سفر شروع کیا۔ کفار مکہ پر مسلمان قافلے کی ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ بغیر مقابلے کے مکہ فتح ہوگیا۔ابو سفیان نے راستے میں آکر ہی اسلام قبول کیا۔خانہ کعبہ پہونچ کر آپﷺ نے کعبہ کو بتوں سے پاک کیا۔ آپﷺ نے اپنے بد ترین دشمنوں کو معاف کیا۔اسی سام ماہ شوال میں غزوہ حنین پیش آیا۔ جس میں مسلمانوں کو فتح ہوئی۔نو ہجری کو حج فرض ہوا۔سن دس ہجری میں آپﷺ نے حج کا اعلان کیا۔ آپﷺ کے ہمراہ ایک لاکھ سے ذیادہ صحابہؓ حج کے احرام کے ساتھ روانہ ہوئے۔حج کے موقع پر میدان عرفات کے دامن میں آپﷺ نے خطبہ حجةالوداع دیا۔ لاکھوں صحابہؓ نے یہ خطبہ سنا۔ یہ خطبہ ساری انسانیت کے لئے زندگی کا منشور ہے۔ اس خطبے میں امیر غریب ‘گورے کالے کا فرق مٹا کر تقویٰ کی بنیا د پر انسانوں کی بہتری قرار دی گئی۔اسی خطبہ کے دوران آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اب دین مکمل ہوگیا ہے۔ اور شائد یہ میرا آخری حج ہے۔ اور بہت جلدمیں اس دنیا سے پردہ فرمانے والا ہوں۔آپﷺ کی عمر عزیز کا 63واں سال ہے۔ ماہ صفر میں آپﷺ کے مرض الوفات کا سلسلہ شروع ہوا۔۲ا۔ ربیع الاول پیر کا دن آپ ﷺ سیدہ عائشہ ؓ کے حجرے میں ہیں ۔ بیماری کی شد ت ہے۔ بار بار پانی چہرہ پر ڈالتے۔ فرماتے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ موت کے لئے سختیاں ہیں۔پھر تین مرتبہ آپﷺ نے فرمایا ۔اے اللہ اے رفیق اعلیٰ۔ اس کے بعد آپﷺ نے دنیا سے پردہ فرما لیا۔انا للہ وانا الےہ راجعون۔صحابہ ؓ غم میں ڈوب گئے۔ لیکن حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمر ؓ اور دیگر نے مسلمانوں کی ہمت بندھائی۔ اگلے روز غسل شریف ہوا۔ اور جس حجرے میں آپﷺ نے پردہ فرمایا اسی میں قبر شریف میں آرام فرمایا۔ یہی وہ جگہ ہے۔ جہاں آپﷺ کا روضہ مبارک مدینہ میں سبز گنبد کے نیچے مسجد نبوی میں واقع ہے۔ جس کی زیارت ہر مسلمان کی سب سے بڑی خواہش ہے۔ انبیا اپنی قبروں میں زندہ ہوتے ہیں۔ اور رسول اکرم ﷺ اپے امتیوں کے درود و سلام کا جواب دیتے ہیں۔ آپﷺ نے نبوت کے بعد 23سال میں جو اسلامی دعوت پیش کی تھی ۔ اسے صحابہ ؓ نے دنیا کے چپے چپے میں عام کیا۔لاکھوں صحابہؓ میں سے چند ہزار صحابہ ؓ کی قبریں مکہ و مدینہ میں ہیں۔ باقی لاکھوں صحابہ ؓ  دنیا میں پھیل گئے اور کبھی گھر نہیں آئے۔ ان کی قربانی کا اثر ہے کہ آج ساری دنیا کا سب سے مقبول و پسندیدہ مذہب اسلام ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کی حیات مبارکہ کا ایک ایک پہلو مسلمانوں کے لئے راہ نجات ہے۔ آپﷺ کے طریقہ زندگی میں ہی مسلمانوں اور ساری دنیا کے انسانوں کی کامیابی ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم نبی اکرم ﷺ کی سنتوں کو عام کریں۔ اور ان پر عمل پیرا ہوکر اطاعت رسول ﷺ اور عشق رسو ل ﷺ کا حقیقی ثبوت فراہم کریں۔ اور اپنے بچوں میں سیرت نبوی ﷺ کو عام کریں۔
پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق و اوصاف
          مسلمانو!اب  وقت آگیا ہے کہ ہم دنیا کے سب سے اچھے مثالی انسان خیرالبشر حضرت محمد مصطفی ﷺ کی زندگی کے گوشے گوشے کو دنیا کے سامنے کھول کھول کر پیش کردیں۔ آپﷺ کی تعلیمات پر سراپا عمل پیرا ہوجائیں۔ تاکہ دشمنان اسلام اہانت اسلام سے پہلے سوچ لیں کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں۔کس انسان کے بارے میں کہہ رہے ہیں۔اور کیوں کر کہہ رہے ہیں۔ ہماری غفلت اور کوتاہی ہے کہ ہم نے اپنے ہردلعزیز آقا کی زندگی کے شب و روز کودنیا کے سامنے واضح انداز میں پیش نہیں کیا۔ اور نہ ہی آپ ﷺ کی تعلیمات پر صد فیصد عمل کیا۔ آئیے دیکھیں کہ روز مرہ کی زندگی میں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺکے اعلیٰ اخلاق و اوصاف کیا تھے اور یہ کہ ہم ان اخلاق سے کیسے اپنی زندگی میں روشنی حاصل کر سکتے ہیں۔ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی زندگی سراپا اخلاق حسنیٰ کی اعلیٰ مثال تھی۔بردباری، قوت برداشت، قدرت پا کر درگزر اور مشکلات پر صبر ایسے اوصاف تھے جن کے زریعہ اللہ نے آپ ﷺکی تربیت کی تھی. ہر حلم و بردباری کی کوئی نہ کوئی لغزش اور کوئی نہ کوئی زبان کی بے احتیاطی جانی جاتی ہے مگر آپ ﷺ کی بلندی کردار کا عالم یہ تھا کہ آپ ﷺ کے خلاف دشمنوں کی ایذا ارسانی اور بدمعاشوں کی خود سری و زیادتی جس قدر بڑھتی گئی آپﷺ کے صبرو حلم میں اسی قدر اضافہ ہوتا گیا.حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ کو جب بھی دو کاموں کے درمیان اختیار دیا جاتا تو آپﷺوہی کام اختیار فرماتے تھے جو آسان ہوتا، جب تک کہ گناہ کا کام نہ ہوتا. اگر گناہ کا کام ہوتا تو آپ ﷺ سب سے بڑھ کر اس سے دور رہتے. آپﷺ نے کبھی اپنے نفس کے لیے انتقام نہ لیا! البتہ اگر اللہ کی حرمت چاک کی جاتی تو آپﷺ اللہ کے لیے انتقام لیتے.آپﷺ سب سے بڑھ کر غیظ و غضب سے دور تھے اور سب سے جلد راضی ہو جاتے تھے.جود و کرم کا وصف ایسا تھا کہ اسکا اندازہ ہی نہیں کیا جا سکتا. آپ ﷺ اس شخص کی طرح بخشش و نوازش فرماتے تھے جسے فقر کا اندیشہ ہی نہ ہو. ابن عبّاس رضی اللہ تعالیٰ عنہا کابیان ہے کہ نبیﷺ سب سے بڑھ کر پیکر جود و سخا تھے. اور آپﷺ کا دریائے سخاوت رمضان میں اس وقت زیادہ جوش پر ہوتا جب حضرت جبریل علیہ السلام آپﷺ سے ملاقات فرماتے اور حضرت جبریل علیہ السلام رمضان میں آپ ﷺ سے ہر رات ملاقات فرماتے اور قرآن کا دور کراتے. پس رسول ﷺ خیر کی سخاوت میں (خزائن رحمت سے مالا مال کر کے) بھیجی ہوئی ہو اسے بھی زیادہ پیش پیش ہوتے تھے.. حضرت جابر کا ارشاد ہے کہ ایسا کبھی نہ ہوا کہ آپﷺ سے کوئی چیز مانگی گئی ہو اور آپﷺ نے نہیں کہہ دیا ہو..شجاعت، بہادری اور دلیری میں بھی آپ کا مقام سب سے بلند اور معروف تھا. آپ ﷺ سب سے زیادہ دلیر تھے. نہایت کٹھن اور مشکل مواقع پر جبکے اچھے اچھے جانبازوں اور بہادروں کے پاؤں اکھڑ گئے آپﷺ اپنی جگہ برقرار رہے اور پیچھے ہٹنے کے بجائے آگے ہی بڑھتے گئے. پائے ثبات میں ذرا لغزش نہ آئی بڑے بڑے بہادر بھی کبھی نہ کبھی بھاگے اور پسپا ہوئے. مگر آپ ﷺ میں یہ بات کبھی نہیں پائی گئی. حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کابیان ہے کہ جب زور کا رن پڑتا اور جنگ کے شعلے خوب بھڑک اٹھتے تو ہم رسول ﷺ کی آڑ لیا کرتے تھے. آپﷺسے بڑھ کر کوئی شخص دشمن کے قریب نہ ہوتا.حضرت انس کا بیان ہے کہ ایک رات اہل مدینہ کو خطرہ محسوس ہوا لوگ شور کی طرف دوڑتے تو راستے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس آتے ہوئے ملے. آپﷺ لوگوں سے پہلے ہی آواز کی جانب پہنچ( کر خطرے کے مقام کا جائزہ لے) چکے تھے. اس وقتﷺابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بغیر زین کے گھوڑے پر سوار تھے. گردن میں تلوار حمائل کر رکھی تھی اور فرما رہے تھے، ڈرو نہیں ڈرو نہیں. ( کوئی خطرہ نہیں).آپﷺ سب سے زیادہ حیاداراور پست نگاہ تھے. ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آپﷺپردہ نشین کنواری عورت سے بھی زیادہ حیا وار تھے. جب آپ ﷺ کو کوئی بات ناگوار گزرتی تو چہرے سے پتہ لگ جاتا. اپنی نظریں کسی کے چہرے پرگاڑتے نہ تھے. نگاہ پست رکھتے تھے اور آسمان کی بہ نسبت زمین کی طرف نظر زیادہ دیر تک رہتی تھی. عموما نیچی نگاہ سے تاکتے. حیا اور کرم نفس کا علم یہ تھا کہ کسی سے ناگوار بات نہ کہتے اور کسی کی کوئی ناگوار بات آپﷺ تک پہنچتی تو نام لیکر اس کا ذکر نہ کرتے بلکہ یوں فرماتے کہ کیا بات ہے کہ کچھ لوگ ایسا کر رہے ہیں.
 آپ ﷺ حیاء کے سبب اپنی نگاہ پست رکھتے ہیں اور آپ ﷺ کی ہیبت کے سبب نگاہیں پست رکھی جاتی ہیں۔ چناچہ آپ ﷺ سے اسی وقت گفتگو کی جاتی ہے جب آپ تبسم فرما رہے ہوں۔آپ ﷺ سب سے زیادہ عادل، پاک د امن، صادق اللہجہ اور عظیم الامانت تھے. اس کا اعتراف آپﷺ کے دوست دشمن سب کو ہے. نبوت سے پہلےﷺ کو امین کہا جاتا تھا اور دور جاہلیت میں آپﷺ کے پاس فیصلے کے لئے مقدمات لائے جاتے تھے. جامع ترمذی میں حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ ایک بار ابو جہل نے آپﷺ سے کہا: ہم آپ کو جھوٹا نہیں کہتے البتہ آپ ﷺجو کچھ لیکر آئے ہیں اسے جھٹلاتے ہیں. اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:“یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں جھٹلاتے بلکہ یہ ظالم اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں ٗٗ ٗ
ہرقل نے ابو سفیان سے دریافت کیا کہ کیا اس (نبی صلی اللہ علیہ وسلم) نے جو بات کہی ہے اس کے کہنے سے پہلے تم لوگ ان پر جھوٹ کا الزام لگاتے تھے؟ تو ابو سفیان نے جواب دیا کہ نہیں۔آپ ﷺ سب سے زیادہ متواضع اور تکبر سے دور تھے. جس طرح بادشاہوں کے لیے ان کے خدّام و حاشیہ بردار کھڑے رہتے ہیں اس طرح اپنے لیے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کھڑا ہونے سے منع فرماتے تھے. مسکینوں کی عیادت کرتے تھے، فقراءکے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے، غلام کی دعوت منظور فرماتے تھے. صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں کسی امتیاز کے بغیر ایک عام آدمی کی طرح بیٹھتے تھے، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ آپﷺ اپنے جوتے خود ٹانکتے تھے، اپنے کپڑے خود سیتے تھے اور اپنے ہاتھ سے اس طرح کام کرتے تھے جیسے تم میں سے کوئی آدمی اپنے کام کاج کرتا ہے. آپﷺ بھی انسانوں میں سے ایک انسان تھے اپنے کپڑے خود ہی دیکھتے کہ کہیں اس میں جوں نہ ہو اپنی بکری خود دوہتے تھے اور اپنا کام خود کرتے تھے۔آپ ﷺ سب سے بڑھ کر عہد کی پابندی اور صلہ رحمی فرماتے تھے، لوگوں کے ساتھ سب سے زیادہ شفقت اور رحم و مروت سے پیش آتے تھے، رہائش اور ادب میں سب سے اچھے تھے. آپﷺکا اخلاق سب سے زیادہ کشادہ تھا. بدخلقی سے سب سے زیادہ دورو نفور تھے. نہ عادتاً فحش گو تھے نہ بہ تکلف فحش کہتے تھے، نہ لعنت کرتے تھے. نہ بازار میں چیختے چلاتے تھے نہ برائی کا بدلہ۔ برائی سے دیتے تھے، بلکہ معافی اور درگزر سے کام لیتے تھے کسی کو اپنے پیچھے چلتا ہوا نہ چھوڑتے تھے. اور نہ کھانے پینے میں اپنے غلاموں اور لونڈیوں پر ترفع اختیار فرماتے تھے. اپنے خادم کا کام خود ہی کر دیتے تھے. کبھی اپنے خادم کو اُف نہیں کہا. نہ اس پر کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے پرعتاب فرمایا. مسکینوں سے محبت کرتے، ان کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے اور ان کے جنازوں میں حاضر ہوتے تھے. کسی فقر کی وجہ سے حقیر نہیں سمجھتے تھے. ایک بار آپﷺ سفر میں تھے. ایک بکری کاٹنے اور پکانے کا مشورہ ہوا. ایک نے کہا’ ذبح کرنا میرے ذمہ، دوسرے نے کہا کھال اتارنا میرے ذمہ، تیسرے نے کہا پکانا میرے ذمہ، نبیﷺ نے فرمایا ایندھن کی لکڑیاں جمع کرنا میرے ذمہ، صحابہ نے عرض کیا. ہم آپﷺ کاکام کر دینگے آپﷺ نے فرمایا میں جانتا ہوں کہ تم لوگ میرا کام کردوگے لیکن میں پسند نہیں کرتا کہ تم امتیاز حاصل کرو کیونکہ اللہ اپنے بندوں کی یہ حرکت ناپسند کرتا ہے کہہ اپنے آپ کو اپنے رفقاءمیں ممتاز سمجھے”. اس کے بعد آپﷺ نے اٹھ کر لکڑیاں جمع فرمائیں.رسول اللہﷺہمیشہ غورو فکر فرماتے رہتے تھے. آپ ﷺ کے لیے راحت نہ تھی. بلا ضرورت نہ بولتے تھے. دیر تک خاموش رہتے تھے. ازاول تا آخر بات پورے منہ سے کرتے تھے، یعنی صرف منہ کے کنارے سے نہ بولتے تھے. جامع اور دو ٹوک کلمات کہتے تھے جن میں فضول گوئی ہوتی تھی اور نہ کوتاہی.نرم خو تھے ۔جفاجو اور حقیر نہ تھے، نعمت معمولی بھی ہوتی تو اس کی تعظیم کرتے تھے. کسی چیز کی مذمّت نہیں فرماتے تھے. کھانے کی نہ برائی کرتے تھے. نہ تعریف حق کو کوئی نقصان پہنچاتا تو جب تک انتقام نہ لیتے آپﷺکے غضب کو روکا نہ جا سکتا تھا. البتہ کشادہ دل کے تھے؛ اپنی نفس کے لیے نہ غضبناک ہوتے نہ انتقام لیتے. جب اشارہ فرماتے تو پوری ہتھیلی سے اشارہ فرماتے اور تعجب کے وقت ہتھیلی پلٹتے. جب غضبناک ہوتے تو رخ پھیر لیتے اور جب خوش ہوتے تو نگاہ پست فرمالیتے. آپ ﷺ کی بیشتر ہنسی تبسم کی صراط میں تھی. مسکراتے تو دانت اولوں کی طرح چمکتے۔لا یعنی بات سے زبان کو روکے رکھتے. ساتھیوں کو جوڑتے تھے، توڑتے نہ تھے. ہر دم قوم کے معزز آدمی کی تکریم فرماتے تھے. اور اسی کو ان کا والی بناتے تھے. لوگوں (کے شر) سے محتاط رہتے اور ان سے بچاؤ اختیار فرماتے رہتے تھے . لیکن اس کے لیے کسی سے اپنی خندہ چبینی ختم نہ فرماتے تھے۔اپنے اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خبر گیری کرتے اور لوگوں کے حالت دریافت فرماتے. اچھی چیز کی تحسین و تصویب فرماتے اور بری چیز کی تقبیح و توہین. معتدل تھے، افراط و تفریط سے دور تھے. غافل نہ ہوئے تھے کہ مبادا لوگ بھی غافل یا ملول خاطر ہو جائیں. ہر حالت کیلئے مستعد رہتے تھے. حق سے کوتاہی نہ فرماتے تھے، نہ حق سے تجاوز فرما کرنا حق کی طرف لے جاتے تھے. جو لوگ آپﷺ کے قریب رہتے تھے وہ سب سے اچھے لوگ تھے اور ان میں بھی آپﷺ کے نزدیک افضل وہ تھا جو سب سے بڑھ کر خیر خواہ ہو؛ اور سب سے زیادہ قدر آپﷺکے نزدیک اس کی تھی جو سب سے اچھا غمگسارومدد گار ہو..آپﷺ اٹھتے بیٹھتے اللہ کا ذکر ضرور فرماتے جگہیں متعین نہ فرماتے. یعنی اپنے لیے کوئی امتیازی جگہ مقرر نہ فرماتے. جب قوم کے پاس پہنچتے تو مجلس میں جہاں جگہ مل جاتی بیٹھ جاتے اور اسی کا حکم بھی فرماتے. سب اہل مجلس پر برابر توجہ فرماتے، حتیٰ کہ کوئی جلیس یہ نہ محسوس کرتا کہ کوئی شخص آپﷺ کے نزدیک اس سے زیادہ با عزت ہے. کوئی کسی ضرورت سے آپﷺ کے پاس بیٹھتا یا کھڑا ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنے صبر کے ساتھ اس کے لیے روکے رہتے کہ خود ہی واپس ہوتا ہے. کوئی کسی ضرورت کا سوال کر دیتا تو آپ اسے عطا کئے بغیر یا اچھی بات کہے بغیر واپس نہ فرماتے آپ نے اپنی خندہ جبینی اور اخلاق سے سب کو نوازا، یہاں تک کہ آپ سب کے لیے باپ کا درجہ رکھتے تھے اور سب آپ ﷺ کے نزدیک یکساں حق رکھتے تھے، کسی کو فضلیت تھی تو تقوی کی بنیاد پر. آپﷺ کی مجلس حلم و حیاءاور صبر و امانت کی مجلس تھی. اس میں آوازیں بلند نہ کی جاتی تھیں اور نہ حرمتوں پر عیب لگتے رہتے تھے. یعنی کسی کی بے آبروئی کا اندیشہ نہ تھا، لوگ تقویٰ کی بوتل بہم محبت و ہمدردی رکھتے تھے. بڑے کا احترام کرتے تھے چھوٹے پر رحم کرتے تھے، حاجتمند کو نوازتے تھے اور اجنبی کو انس عطا کرتے تھے۔آپ ﷺ کے چہرے پر ہمیشہ بشاشت رہتی سہل خو اور نرم پہلو تھے جفا جو اور سخت خونہ تھے. نہ چیختے چلاتے تھے، نہ فحش کہتے تھے نہ زیادہ عتاب فرماتے تھے نہ بہت تعریف کرتے تھے. جس چیز کی خواہش نہ ہوتی اس سے تغافل برتتے تھے. آپ ﷺ سے مایوسی نہیں ہوتی تھی. آپﷺ نے تین باتوں سے اپنے نفس کو محفوظ رکھا؛(۱)ریاء سے (۲)کسی چیز کی کثرت سے (۳)اور لا یعنی بات سے. اور تین باتوں سے لوگوں کو محفوظ رکھا یعنی آپﷺ  (۱) کسی کی مذمّت نہیں کرتے تھے (۲) کسی کو عار نہیں دلاتے تھے (۳) اور کسی کی عیب جوئی نہیں کرتے تھے. آپ ﷺ وہی بات نوک زبان پر لاتے تھے جس میں ثواب کی امید ہوتی. جب آپ ﷺ تکلم فرماتے تو آپﷺ کے ہم نشین یوں سر جھکائے ہوتے گویا سروں پر پرندے بیٹھے ہیں، اور جب آپﷺخاموش ہوتے تو لوگ گفتگو کرتے. لوگﷺ کے پاس گپ بازی نہ کرتے. آپﷺ کے پاس جو کوئی بولتا ہے سب اس کے لیے خاموش رہتے. یہاں تک کہ وہ اپنی بات پوری کر لیتا. ان کی بات وہی ہوتی جو ان کا پہلا شخص کرتا. جس بات سے سب لوگ ہنستے اس سے آپﷺ بھی ہنستے اور جس بات پر سب لوگ تعجب کرتے اس پر آپﷺ بھی تعجب کرتے. اجنبی آدمی درشت کلامی سے کام لیتا تو اس پر آپﷺ صبر کرتے اور فرماتے “جب تم لوگ حاجتمند کو دیکھو کہ وہ اپنی حاجت کی طلب میں ہے تو اسے سامان ضرورت سے نواز دو”. آپ صلیﷺاحسان کا بدلہ دینے والے کے سوا کسی سے ثنا کے طالب نہ ہوتے تھے. نبی ﷺ اپنی مجلس میں سب سے زیادہ با وقار ہوتے. اپنے پاؤں وغیرہ نہ پھیلاتے، بہت خاموش رہتے. بلا ضرورت نہ بولتے. جو شخص نا مناسب بات بولتا اس سے رخ پھیر لیتے. آپ ﷺ کی ہنسی مسکراہٹ تھی اور کلام دو ٹوک؛ نہ فضول نہ کوتاہ. آپﷺ کے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہنسی بھی آپ کی توقیر و اقتدار میں مسکراہٹ ہی کی حد تک ہوتی۔حاصل یہ کہ نبیﷺبے نظیر صفات کمال سے آراستہ تھے. آپﷺ کے رب نے آپﷺ کو بے نظیر ادب سے نوازا تھا، حتیٰ کہ اس نے خود آپﷺکی تعریف میں فرمایا۔یقیناً آپﷺ عظیم اخلاق پر ہِیں۔ اور یہ ایسی خوبیاں تھیں جن کی وجہ سے لوگ آپﷺ کی طرف کھینچ آئے، دلوں میں آپکی محبت بیٹھ گئی اور آپﷺ کو قیادت کا وہ مقام حاصل ہوا کہ لوگ آپﷺپر وا رفتہ ہو گئے.اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں اپنے پیارے حبیب ﷺ کے اخلاق پرعمل کر نے اور انہیں ساری انسانیت تک پہونچانے کی توفیق عطا فرمائے(آمین)
                                      مولف
حافظ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی
































































Powered By Blogger