Tuesday 11 April 2023

Taj Mahal in Ghaziabad

 

Taj Mahal in Ghaziabad

Dr. Mohammad Aslam Farooqui

Phone: 9247191548

Sataire article

Some one wakes you up in the night and ask a question where is Taj Mahal and you will reply o fool you don’t know Taj Mahal is in Aagra Up. We all know that Taj Mahal is the great symbol of India which every Indian is proud of it and feels proud to know that we live in a country where Taj Mahal is. Every Indian wishes to have his picture taken by sitting in front of the special bench of the Taj Mahal. Now in the new era, there is no need to go to the Taj Mahal, with the help of a phone app, we can remove someone and put our picture to show ourselves in front of the Taj Mahal. A poor man cannot build a Taj Mahal for his beloved, so to keep the heart of the poor man, the poet said:

Ek Shahinsha Ne Doulat Ka Sahara Le Kar

Hum Ghareebon Ki Mohabbat Ka Udaya Hai Mazaq

An emperor has mocked the love of us poor people by taking the help of wealth

When children gain consciousness and are taught a history subject, they are reminded that the Taj Mahal is located in Agra and Agra is a district of Uttar Pradesh. In a village school in North India, a teacher was teaching history to children and she said, tell me, Taj Mahal is located in Ghaziabad. The children were from the age of YouTube. A student stood up and boldly said, Madam, you are saying wrong, Taj Mahal is in Agra. The teacher scared the child with the stick in his hand and said that you are teaching us a lesson, be quiet and sit down. I Said Taj Mahal is located in Ghaziabad it is final and authentic. The school students were very alert when they return to home in the evening, they all told their parents that our social studies teacher is teaching us wrong lessons and says that Taj Mahal is located in Ghaziabad. Some parents who never cared about their children's education got angry and the next day they all approached the school head master and said that your social studies teacher is teaching the children wrong lessons and she says Taj Mahal is situated at Ghaziabad. While head Master ji, you and we all know very well that Taj Mahal is located in Agra, we do not want such wrong education to be given to our children, please take action and expel this teacher from the school. The headmaster said that at first you never came to school, you were repeatedly given notice to pay the children's school fees, but no one responded. I want the money to run the school. Come on, you didn't come to school in any other way. If you have come now, pay the fee. Otherwise, listen, until you pay your child's fee, our teacher will continue to teach like this. Taj Mahal is located in Ghaziabad. For collecting fee schools adopt other methods especially private schools whose ambitions to collect fees are awakened when exam days come. Children's hall tickets are being stopped, small children are innocently asking at home saying that they have given the hall ticket to so and so. And the poor parents somehow take a loan and perform the most difficult task of paying their child's school fees. School people also know many ways to collect money. Parents were happy during Corona that their children have cleared their SSC and INTER exams without any problems due to Corona. While the school management prayed for the end of the corona epidemic and became poor.

I remembered from the Taj Mahal in Ghaziabad story that In a village school, a teacher had to teach English and he could not even pronounce the English words from scratch. To punish a wicked student. The teacher took him by the ears and took him from the headmaster's room and said, "Sir, this child is very mischievous, his natoore is bad, give him TC immediately and expel him from the school." . the scool head master had also poor  English pronounciation, he was sympathetic, he said, "Let the  child's Futoore will get worse, forgive him." You must have known that natore and futore mean nature and future. There are many types of students in educational institutions. We met a student who was not very smart or what he considered to be a workaholic type of student. Once we asked Sohail in the class room to tell me where is the post office in this village. Sohail said I don't know sir. While Sohail's friends pointed out that Sir Sohail comes to the school in front of the post office every day, he is lying. I then found out that in this small village which has only one post office, then why are you lying? Sohail innocently said, "Sir, do I know where the post office is? I don't know." If I say yes, you will give me a letter to go and post it and I wanted to avoid this work, so I said I don't know. So in the era of internet you can not say that Taj Mahal is in Ghaziaabad.

 

 

غازی آباد میں تاج محل- مزاحیہ مضمون ۔ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی

 

غازی آباد میں تاج محل

                                    ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی

فون:9247191548

                                                مزاحیہ مضمون

تاج محل ہندوستان کی وہ عظیم نشانی ہے جس پر ہر ہندوستانی کو فخر ہے اور وہ یہ سمجھ کر فخر محسوس کرتا ہے کہ ہم اس دیش میں رہتے ہیں جہاں تاج محل ہے۔ ہر ہندوستانی کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ تاج محل کی مخصوص بنچ کے سامنے بیٹھ کر اپنی تصویر بنائے۔ اب نئے زمانے میں تاج محل جانے کی ضرورت نہیں فون کے ایک ایپ کی مدد سے ہم کسی کو ہٹا کر اپنی تصویر لگا کر بھی اپنے آپ کو تاج محل کے روبرو دکھا سکتے ہیں۔ غریب اپنی محبوبہ کے لیے تاج محل نہیں بنا سکتا اس لیے غریب کا دل رکھنے کے لیے شاعر نے کہہ دیا کہ

            اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر                        ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق

            بچے جب ہوش سنبھالتے ہیں اور انہیں تایخ مضمون پڑھایا جاتا ہے تو انہیں یاد لایا جاتا ہے کہ تاج محل آگرہ میں واقع ہے اور آگرہ اترپردیش کا ایک ضلع ہے۔ شمالی ہند کے ایک دیہاتی اسکول میں ایک ٹیچر بچوں کو تاریخ کا سبق پڑھا رہی تھیں اور انہوں نے کہا کہ بولو بچو تاج محل غازی آباد میں واقع ہے۔ بچے یوٹیوب کے دور کے تھے ایک طالب علم نے کھڑے ہو کر ہمت سے کہا کہ میڈم آپ غلط کہہ رہی ہیں تاج محل تو آگرہ میں ہے۔ ٹیچر نے اپنے ہاتھ میں موجود ڈنڈے سے بچے کو ڈرایا اور کہا کہ تم ہمیں سبق سکھاتے ہو چپ چاپ بیٹھے رہو تاج محل غازی آباد میں واقع ہے۔ اسکول کے طالب علم بڑے ہوشیار تھے جب چھٹی ہوئی اور وہ گھروں کو گئے تو سب نے اپنے والدین سے کہا کہ ہماری سماجی علم کی ٹیچر ہمیں غلط سبق پڑھا رہی ہیں اور کہتی ہے کہ تاج محل غازی آباد میں واقع ہے۔ بچوں کی تعلیم کی کبھی فکر نہ کرنے والے کچھ والدین غصے میں آگئے اور دوسرے دن سب اسکول کے ہیڈ ماسٹر کے پاس پہنچ گئے اور کہا کہ فلاں سماجی علم کی ٹیچر بچوں کو غلط سبق پڑھا رہی ہیں اور وہ کہتی ہے کہ تاج محل غازی آباد میں واقع ہے جب کہ ہیڈ ماسٹر جی آپ اور ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ تاج محل تو آگرہ میں واقع ہے ہم نہیں چاہتے کہ اس طرح کی غلط تعلیم ہمارے بچوں کو ملے آپ کاروائی کیجئے اور اس ٹیچر کو اسکول سے نکال دیجئے۔ ہیڈ ماسٹر نے کہا کہ پہلے تو تم کبھی اسکول نہیں آئے بار بار نوٹس دی گئی کہ بچوں کے اسکول کی فیس جمع کیجئے کسی نے کچھ نہیں کیا۔ مجھے اسکول چلانے کے لیے فیس کی رقم چاہیے چلو تم کسی اور طریقہ سے تو اسکول نہیں آئے اور اب آئے ہو تو فیس بھر کر جاؤ ورنہ سن لو جب تک تم اپنے بچے کی فیس جمع نہیں کرو گے ہماری ٹیچر ایسے ہی پڑھاتی رہے گی کہ تاج محل غازی آباد میں واقع ہے۔ اسکول فیس کے لیے تاج محل کو غازی آباد میں پہنچانے والے ایسے اور بھی انتظامیہ ہیں خاص طور سے خانگی اسکولوں کے انتظامیہ جن کی فیس کی وصولی کی امیدیں اس وقت جاگتی ہیں جب امتحان کے دن آتے ہیں۔ بچوں کے ہال ٹکٹ رکا لیے جاتے ہیں چھوٹے بچے معصومیت سے گھر میں کہتے ہیں کہ فلاں فلاں کو ہال ٹکٹ دے دیا گیا ہے مجھے نہیں ملا ٹیچر کہتی ہے کہ جب تک فیس نہ بھروگے ہال ٹکٹ نہیں ملے گا۔ اور بے چارے ماں باپ کسی طرح قرض لے کر اسکول میں اپنے بچے کی فیس بھرنے کا مشکل ترین فریضہ انجام دیتے ہیں۔ اسکول والے بھی پیسے جمع کرنے کے کئی طریقے جانتے ہیں اسکول کی کتابیں ڈریس اور پتہ نہیں کیا کیا عنوانات سے رقم والدین سے اینٹھی جاتی ہے۔ والدین کرونا کے دوران خوش تھے کہ ان کے بچے بغیر فیس دئیے ایس ایس سی اور انٹر کے امتحان کرونا کی بدولت کامیاب کر چکے ہیں۔ جب کہ اسکول انتظامیہ کرونا کی وبا کی خاتمے کی دعا کرتے کرتے کنگال ہوگئے۔

            غازی آباد میں تاج محل سے یاد آیا کہ ہمارے مدارس میں تعلیم کے بھی نرالے انداز ہیں۔دیہاتی اسکول میں ایک ٹیچر کو انگریزی پڑھانا تھا اور اسے خیر سے انگریزی کے بنیادی الفاظ کا تلفظ بھی نہیں آتا تھا کمرہ جماعت میں کوئی نہ کوئی شریر طالب علم رہتا ہے۔ ایک شریر طالب علم کو سزا دلانے کے لیے اس کے کان پکڑ کر ٹیچر اسے ہیڈ ماسٹر کے کمرے میں لے گئی اور کہا کہ ہیڈ ماسٹر صاحب اس بچے نے میری ناک میں دم کردیا ہے یہ بہت شرارتیں کرتا ہے اس کا نٹورے خراب ہے اسے فوراً ٹی سی دے کر اسکول سے نکال دیجئے۔ ہیڈ ماسٹر بھی ویسی ہی انگریزی پڑھے ہوئے تھے جیسی کہ ٹیچر تاہم وہ ہمدرد تھے انہوں نے کہا کہ جانے دیجئے ٹیچر بچے کا فٹورے خراب ہوجائے گا معاف کردیجئے اسے۔ آپ جان گئے ہوں گے کہ نٹورے اور فٹورے سے کیا مراد ہے جی ہاں نیچر اور فیوچر۔ تعلیمی اداروں میں طالب علموں کی بھی کئی قسمیں ہوتی ہیں۔ ہمیں ایک غیر معمولی ہوشیار یا یوں سمجھیں کام چور قسم کے طالب علم سے سابقہ پڑا۔ ایک دفعہ ہم نے کمرہ جماعت میں مومود سہیل سے پوچھا سہیل بتاؤ تو سہی اس گاؤں میں پوسٹ آفس کہاں ہے۔سہیل نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم سر۔ جب کہ سہیل کے دوستوں نے اشارہ کیا کہ سر سہیل روزانہ پوسٹ آفس کے سامنے سے آتے ہیں وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ میں نے پھر دریافت کیا کہ سہیل چھوٹا سا گاؤں ہے جس میں ایک ہی پوسٹ آفس ہوتا ہے پھر تم جھوٹ کیوں بول رہے ہو سہیل نے معصومیت سے کہا کہ سر مجھے پوسٹ آفس کہاں ہے معلوم ہے میں نے اس لیے نہیں معلوم کہا کہ اگر معلوم ہے کہہ دوں تو آپ مجھے ایک خط دیں گے کہ جاؤ پوسٹ کر آؤ اور میں اس کام سے بچنا چاہتا تھا اس لیے نہیں معلوم کہا۔ طالب علموں کی شرارتیں بھی عجیب ہوتی ہے۔ ایک مرتبہ کمرہ جماعت میں ٹیچر نے ایک لفظ کے معنی دریافت کیے اور رشید سے کہا کہ بتاؤ رشید اس لفظ کے معنی کیا ہیں۔ رشید کھڑے ہو کر کہنے لگا میں نہیں بتاؤں گا۔ مجھے معلوم ہے۔ ٹیچر نے پوچھا معلوم ہے تو بتاتے کیوں نہیں۔ رشید نے کہا میں نے بتا دیا تو آپ کو اور دوسروں کو معلوم ہوجائے گا میں کیوں مفت میں بتاؤں۔ اس طرح کے شاگرد ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔ پرانی بات ہے کہ ایک گاؤں کے اسکول میں امجد اور شاہد پڑھا کرتے تھے۔ ایک دن دونوں تاخیر سے اسکول پہنچے۔ ٹیچر نے امجد سے پوچھا تم اسکول دیر سے کیوں آئے ہو امجد نے کہا کہ راستے میں میرا ایک روپیہ کھوگیا تھا اسے ڈھونڈنے میں دیر ہوگئی تھی۔ ٹیچر نے شاہد سے پوچھا تم کیوں دیر سے آئے ہو تو شاہد نے کہا کہ امجد کا روپیہ جہاں گرا تھا میں اس روپیے پر پیر رکھ کر ٹہر گیا تھا کہ کب امجد آگے بڑھے اور میں اس کا روپیہ اٹھا لوں۔ جب بھی گاؤں میں کوئی بوڑھا مرتا ہے تو بچے بہانا کرتے تھے کہ دادا کا انتقال ہوگیا۔ ایک دفعہ وہی امجد شاہد سڑک پر سے جارہے تھے سامنے سے دو بوڑھے آرہے تھے امجد نے کہا کہ دیکھو سامنے دو اور چھٹیاں آرہی ہیں۔کہا جاتا ہے کہ سرکاری مدارس میں پڑھانے والے اساتذہ کی بھی کئی قسمیں ہوتی ہیں ایک قسم کے اساتذہ وہ ہوتے ہیں جو پہلی تاریخ کا انتظار کرتے کرتے مہینہ گزار دیتے ہیں کہ ان کی تنخواہ اب آئی گی کہ اب۔ ایک ریل گاڑی کا انتظار کرنے والے اساتذہ ہوتے ہیں صبح ٹرین میں سوار ہونے سے پہلے ریل گاڑی کا انتظار کرتے ہیں اور اسکول جا کر پھر شام میں ٹرین میں سوار ہونے کا انتظار کرتے رہتے ہیں وہ ہمیشہ اپنے فون میں آتی جاتی گاڑی کو ٹریک کرتے اپنا وقت گزار دیتے ہیں۔نئے زمانے میں اسکول بنک مارنا‘لاسٹ بنچر اور پتہ نہیں کیسی کیسی تعلیمی اصطلاحات وجود میں آچکی ہیں۔ اسکول اساتذہ کو ہمیشہ ڈر لگا رہتا ہے کہ کمرہ جماعت میں طلباء کی جانب سے ان کی سبکی نہ ہو کیوں کہ آج کا طالب علم انٹرنیٹ اور یوٹیوب سے پتہ نہیں کیا کیا سیکھ کر آجاتا ہے کہ اب کسی ٹیچر کی ہمت نہیں ہوتی کہ تاج محل کو غازی آباد میں بتا سکے۔

Powered By Blogger