Wednesday 31 July 2013

                                 

    ماں کی انگلی تھام کر چلنا بہت اچھا لگا


                                                                                    از : ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی

                                                                                    صدر شعبہ اردو گرراج گورنمنٹ کالج نظام آباد

   دنیا میں جتنے بھی انسانی رشتے ہیں۔ان میں سب مقدس اور عظمت والا رشتہ ’ ’ماں“ کا ہوتا ہے۔ماں اولاد کو جنم دیتی ہے۔ پال پوس کر بڑا کرتی ہے۔ اور ایک کمزور اور ناتواں پودے کو تناور درخت میں تبدیل کرتی ہے۔ اولاد کو ماں سے محبت ہو یا نہ ہولیکن ماں ہر حال میں اپنی اولاد پر ممتا نچھاور کرتی رہتی ہے۔ خود بھوکی رہے گی لیکن اولاد کے لئے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرے گی۔ بچہ بیمار ہوجائے تو رات بھر جاگ کر اس کی تیمار داری کرے گی۔ اپنی اولاد کو ترقی کرتا دیکھ کر ماں خوش ہوتی ہے۔ اور امید کرتی ہے کہ بڑھاپے میں اس کی اولاد اس کا سہارا بنے گی۔ لیکن اکثر حالات میں ماں کی یہ خواہش پوری نہیں ہوتی۔ آج کل تو یہ کہاوت مشہور ہو گئی ہے کہ ایک ماں دس بچوں کو تو پال لیگی۔ لیکن دس بچے مل کر ایک ضعیف اور بوڑھی ماں کو نہیں پال رہے ہیں۔ اپنے والدین کے ساتھ ایسے غلط برتا کے باوجود ماں اپنے بچے کے بہتر مستقبل لئے ہمیشہ دعا گو رہتی ہے۔دنیا کے ہر مذہب اور سنجیدہ معاشرے میں ماں کو اعلیٰ مقام اور مرتبے پر رکھا گیاہے۔ مذہب اسلام کی تعلیمات میں کہا گیا ہے کہ ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے۔بوڑھے ماں باپ کی خدمت جہاد سے بہتر ہے۔والدین سے صلہ رحمی ‘عمر کی درازی اور روزی میں کشادگی کا سبب ہے۔اور میدان حشر میں لوگوں کو ان کی ماں کی نسبت سے پکارا جائے گا۔ حضرت ابو حریرہؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا کہ اے خدا کے رسول ﷺ میرے نیک سلوک کا سب سے ذیادہ حق دار کون ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا تیری ماں۔اس نے پوچھا پھر کون تو آپ ﷺ نے فرمایا تیری ماں۔اس نے پوچھا پھر کون تو آپ ﷺ نے فرمایا تیرا باپ۔ نیک اور صالح اولاد والدین کی خدمت کرتے ہوئے اپنا فرض پدری پورا کرتی ہے۔ ہر سنجیدہ انسان ماں کے تئیں اچھے جذبات رکھتا ہے۔ لیکن ایک تخلیق کار جس نے اپنی ماں کے سایہ دار آنچل تلے اپنی زندگی کی دھوپ کاٹی ہو اور زندگی میں ماں کا بھر پور پیار حاصل کیا ہو جب وہ شاعر ہو اور اپنے فن کے ذریعے ماں کے بارے میں جذبات کا اظہار کرے تو دنیا کے سبھی فرماں بردار بچے اس کے ہم خیال بن جاتے ہیں۔ یوں تو شعرا اور ادیبوں نے گاہے گاہے اپنے فن کے ذریعے ماں کے مقدس رشتے کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔لیکن موجودہ دور کے ایک جذباتی شاعر منور رانا نے اپنی شعری تصنیف ” ماں“ کے ذریعے اس رشتے کو بھر پور خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ماں کا ذکر عباد ت ہے۔ اور شادی سے قبل ہر بچے کی محبوبہ اس کی ماں ہوتی ہے۔ اپنی کتاب اور ماں کے بارے میں اپنی شاعری کی وجہہ بیان کرتے ہوئے منور رانا لکھتے ہیں کہ”میں پوری ایمان داری سے اس بات کا تحریری اقرار کرتا ہوں کہ میں دنیا کے سب سے مقدس اور عظیم رشتے کا پرچار صرف اس لئے کرتا ہوں کہ اگر میرے شعر پڑھ کر کوئی بھی بیٹا اپنی ماں کا خیال کرنے لگے ‘رشتوں کی نزاکت کا احترام کرنے لگے تو شائد اس کے اجر میں میرے کچھ گناہوں کا بوجھ ہلکا ہو جائے۔ منور رانا نے سیدھے سادھے لیکن جذباتی انداز میں ماں سے اپنی وابستگی اور ان کے لئے ماں کی قربانیوں کو پیش کیا ہے۔ آئیے ان کے اور ایک بیٹے کا سفر زندگی میں ماں کے جذبات جاننے کے لئے ہم بھی اس سفر میں شامل ہوتے ہیں۔
            شہر کے رستے ہوں چاہے گاں کی پگڈنڈی   ماں کی انگلی تھام کر چلنا بہت اچھا لگا
             انسان کا بچپن معصومیت کے ساتھ ساتھ ضد بھی سکھاتا ہے۔ خواہشات کی تکمیل نہ ہو تو رونا بھی جلد آتا ہے۔اپنے بچے کے آنسوں کو جذب کرتے ہوئے ماں اپنے دو پٹے کی حفاظت یوں کرتی ہے۔
            میں نے روتے ہوئے پوچھے تھے کسی دن آنسو                      مدتوں ماں نے نہیں دھویا دو پٹہ اپنا
اور یہی دوپٹا بچے کے لئے تاروں بھرے آسمان سے بہتر ہوجاتا ہے۔
            تیرے دامن میں ستارے ہیں تو ہونگے اے فلک       مجھ کو اپنی ماں کی میلی اوڑھنی اچھی لگی
 بچے کی پرورش کے لئے غریب اور بے سہارا ماں خود دکھ جھیلتی ہے۔ ضرورت پڑنے پر محنت مزدوری کرتی ہے۔ لیکن جب وہ اپنے بچے کو پروان چڑھتا دیکھی ہے تو اپنی ساری تکان بھول جاتی ہے۔
            دن بھر کی مشقت سے بدن چور ہے لیکن                 ماں نے مجھے دیکھا تو تھکن بھول گئی ہے
بیٹا ماں کی محبت اور شفقت کے سائے میں پروان چڑھتا ہے اور اس قابل ہو جاتا ہے کہ گھر سے باہر نکل کر زندگی کے حوادث کا سامنا کر سکے۔ بیٹا ماں کے ہاتھ کی روٹی کھا کر کامیابی کی تلاش میں یہ سوچ کر اور اس یقین کے ساتھ نکلتا ہے کہ
            ابھی زندہ ہے ماں میری مجھے کچھ بھی نہیںہوگا                      میں گھر سے جب نکلتا ہو دعابھی ساتھ چلتی ہے
بیٹا شام میں تھکا ماندہ گھر آتا ہے۔ زندگی کی راہوں میں کبھی اسے دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ گھر میں گم سم بیٹھا ہے لیکن اسے احساس ہے کہ اس کی زندگی کے مسائل عارضی ہیں۔ اور ماں کی دعا ں سے ضرور حل ہو جائیں گے۔
            گھیر لینے کو جب بھی بلائیں آگئیں               ڈھال بن کر سامنے ماں کی دعائیں آگئیں
جب بیٹے کی زندگی میں غم کی بلائیں کچھ ذیادہ ہی ہوجاتی ہیں تو ماں اپنے بیٹے کو ٹوٹنے بکھرنے نہیں دیتی اور اسے ممتا سے بھرا پیار دیتے ہوئے اپنی باہوں میں چھپا لیتی ہے۔ ماں کی باہوں کی محفوظ پناہ گا ہ کو یاد کرتے ہوئے بیٹا کہتا ہے۔
            اب بھی چلتی ہے جب آندھی کبھی غم کی رانا                        ماں کی ممتا مجھے باہوں میں چھپالیتی ہے
حادثوں سے بچنے کے لئے بیٹا اپنی ماں کی دعاں کو موثر ہتھیار تصور کرتا ہے۔ اور اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ
            حادثوں کی گرد سے خود کو بچانے کے لئے                ماں ہم اپنے ساتھ بس تیری دعا لے جائیں گے
بچے کو اپنی ماں سے بے حد لگا ہے۔ زندگی کی دھوپ چھاں میں ہر دم اسے اپنی ماں ہی دکھائی دیتی ہے۔ عباد ت کے لئے جب موذن کی اذان کانوں میں پڑتی ہے تو اسے لگتا ہے کہ اسے اپنی ماں بلا رہی ہے۔
            کبھی کبھی مجھے یوں بھی اذاں بلاتی ہے                      شریر بچے کو جس طرح ماں بلاتی ہے
ہندوستان میں وطن کی مٹی کو ماں کا درجہ حاصل ہے۔ مادر وطن کی آبرو کی حفاظت اور اسے لٹنے سے بچانے کے لئے اور اسے
 سر حدوں کی حفاظت کے لئے جب بھی ضروورت پڑی مادر وطن کے لالوں اور جیالوں نے اپنی جانیں نچھاور کی ہیں۔ لیکن کچھ لوگ اپنے وطن کے لئے جان قربان کرنے والے جیالوں کی قربانیوں کو فراموش کردیتے ہیں۔ اور انہیں ملک دشمن کہنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ایسے میں شدت جذبات سے مغلوب ہوتے ہوئے یہ جیالے کہتے ہیں۔
            سر پھرے لوگ ہمیں دشمن جاں کہتے ہیں                 ہم جو اس ملک کی مٹی کو بھی ماں کہتے ہیں
اپنے وطن کی سرزمین کو ماں کا درجہ دیتے ہوئے یہاں کے نوجوان اسے چھوڑ کر کہیں جانا نہیں چاہتے۔
            یہیں رہوں گا کہیں عمر بھر نہ جاں گا                                زمین ماں ہے اسے چھوڑکر نہ جاں گا
لیکن پاپی پیٹ کا معاملہ ہے۔ انسان کو زندہ رہنے کے لئے دو وقت کی روٹی کی جستجو کرنا ہے۔ اور یہ روٹی وطن میں نہ ملے تو بیٹا وطن سے دور پردیس جاتا ہے۔ اپنی ماں سے ان جذبات کے ساتھ رخصت ہوتا ہے۔
            پردیس جارہے تو تعویذ باندھ لو                  کہتی ہیں مائیں بچوں سے اپنے پکار کے
بچہ ماں کی دعائیں اور نصیحتیں لئے روزگار کی تلاش میں گھر سے دور سفر پر روانہ ہوجاتاہے۔ سفر میں دن تو کسی طرح کٹ جاتا ہے۔ لیکن رات آتے ہی بیٹا ماں کو اور ماں بیٹے کو یاد کرنے لگتے ہیں۔
            وہ تو لکھا کے لائی ہے قسمت میں جاگنا          ماں کیسے سو سکے گی کہ بیٹا سفر میں ہے
بیٹا پردیس پہونچتا ہے اور روزگار کے حصول کے لئے زمانے کے سر د گرم سہنے لگتا ہے۔ بیٹے کے بہتر مستقبل پر ناز کرتی ہوئی ماں برادری میں اپنی ناک اونچی کرتی ہے۔ لیکن ماں کی محبت کا بھوکا بیٹا کچھ اور ہی سوچتا ہے۔
            برباد کردیا ہمیں پردیس نے مگر                  ماں سب سے کہہ رہی ہے کہ بیٹا مزے میں ہے
ایک عرصے بعد بیٹا گھر لوٹ کر آتا ہے۔ کیونکہ اس کا باپ اس سے جدا ہوگیا ہے۔ ماں کا سہارا چھن گیا۔ باپ کی جدائی پر اسے ماں کا غم بانٹنا ہے۔ اور اس کے لئے ایک گھنی چھاں فراہم کرنا ہے۔باپ نے عمر بھر کی اپنی کمائی لٹا کر زندگی کی دھوپ میں اپنے آپ کو جھلساتے ہوئے اپنے خاندان کے لئے ایک آشیاں بنایا تھا۔ لیکن اس آ شیاں کی چھاں میں وہ ٹھیک سے سو بھی نہ سکا تھا کہ ہمیشہ ہمیشہ کی ابدی نیند نے اسے سلادیا۔ زندگی بھر ماں باپ کو پلٹ کر نہ پوچھنے والے بیٹے اور رشتے دار اپنا حق لینے پہونچ گئے۔ تب ماں کی محبت میں ڈوبا بیٹا وراثت کی تقسیم کے بعد اپنے حصے میں آئی ماں کی دولت کو سنبھالتے ہوئے بے اختیار کہہ اٹھتا ہے کہ
                         کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دکاں آئی                  میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا مرے حصے میں ماں آئی
شوہر کی جدائی کے بعد بیوی پر غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے۔ اپنی ماں کو سہارا دیتے ہوئے بیٹا لالچی ہوجاتا ہے۔ اسے خدا کا انصاف یاد آتا ہے۔ جیسے کو تیسا کے مصداق اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے وہ ماں کی خدمت میں یہ سوچ کر جٹ جاتا ہے کہ
            یہ سوچ کے ماں باپ کی خدمت میں لگا ہوں                        اس پیڑ کا سایہ مرے بچوں کو ملے گا
موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ ہر انسان کو یہ دنیا کا اسٹیج چھوڑ کر جانا ہے۔ چنانچہ اپنے دکھوں کے خاتمے کے ساتھ بچے کی ماں بھی اپنے بیٹے کو زندگی کی مشکل راہوں میں چلنا سکھا کر اسے روتا ہوا چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔ بیٹا ماں کی جدائی پر رو پڑتا ہے۔ لیکن اسے تسلی دینے والے آجاتے ہیں۔
            منور ماں کے آگے یوں کبھی کھل کر نہیں رونا                       جہاں بنیا د ہو اتنی نمی اچھی نہیں لگتی
ماں کی جدائی کی خبر سبھی بیٹوں کو دی جاتی ہے۔ لیکن زندگی کے کاروبار میں مصروف بیٹوں کو اتنی فرصت نہیں ملتی کہ وہ اپنی ماں کے جنازے کو کاندھا دینے کے لئے وقت پر پہونچ سکیں۔ اس طرح بیٹوں کے انتظار میں ماں کا جنازہ یو ں گویا ہے۔
            اب دیکھئے کون آئے جنازے کو اٹھانے                    یوں تار تو میرے سبھی بیٹوں کو ملے گا
ماں کو الوداع کہنے کے بعد پیارابیٹا گھر آتا ہے۔ اور اپنی کھوئی ہوئی وراثت کو کھوجنے لگتا ہے۔
            میں نے کل شب چاہتوں کی سب کتا بیں پھاڑ دیں    صرف ایک کا غذ پہ لکھا لفظ ”ماں“ رہنے دیا
اس طرح منور رانا نے ماں کے تعلق سے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔
۔



0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Powered By Blogger