Saturday 17 December 2022

انٹرنیشنل اردو سمینار۔ عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد۔اردو زبان وادب میں انسانی اقدار و مساوات-International Urdu Seminar Osmania University


اردو زبان وادب میں انسانی اقدار و مساوات

شعبہ اردو عثمانیہ یونیورسٹی کے زیر اہتمام 15ڈسمبر کو ایک روزہ بین الاقوامی اردو سمینار کا انعقاد

رپورتاژ: ڈاکٹر محمد ناظم علی

 

            عالمی شہرت یافتہ مادر علمی جامعہ عثمانیہ کے شعبہ اردو کے زیر اہتمام ایک روزہ بین الاقوامی اردو سمینار بہ عنوان”اردو ادب میں انسانی اقدار و مساوات“ کا انعقاد مورخہ15ڈسمبر بروز جمعرات بہ وقت صبح10-00بجے تا شام5-00بجے یونیورسٹی کے سمینار ہال کمرہ نمبر133آرٹس کالج میں عمل میں آیا۔ انسانی اقدار موجودہ زمانے کی اہم ضرورت ہے اور اردو شعر و ادب اس موضوع پر ہر زمانے میں اپنا پیغام پیش کرتا رہا ہے۔ ہندوستانی سماج کو اخلاقی و انسانی اقدار و مساوات سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔جب کوئی بھی ملک و قوم اقدار سے مربوط ہوجاتے ہیں تو وہاں امن رواداری ہم آہنگی تحمل برداشت صبر اور ہمہ جہت ترقی ہوتی ہے۔انسانی قدریں ہی سماج کو عروج عطا کرتے ہیں۔ شعبہ اردو کے ذمہ داروں نے ایک روزہ بین الاقوامی سمینار کے لیے ایسا عنوان منتخب کرکے اہم اور کلیدی کام انجام دیا ہے۔ عصر حاضر اور عالمی سماج کو اس طرح کے عنوانات کی ضرورت ہے۔  عثمانیہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں زائد از نصابی سرگرمیوں کو انجام دینے اور سمینار کے انعقاد کے لیے مستقل لیکچررز تو نہیں ہیں لیکن یہ کام شعبہ اردو کے جز وقتی اساتذہ اردو نے انجام دیا اور شعبہ اردو میں کافی عرصے کے بعد ایک شاندار ایک روزہ بین الاقوامی سمینار منعقد کرتے ہوئے مثال قائم کی۔انٹرنیشنل سمینار کے انعقاد کے لیے جہاں بے مثال انتظامی صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے وہیں کافی مالیہ بھی درکار ہوتا ہے لیکن جب شعبہ کے اساتذہ کے عزائم بلند ہوں تو منزلیں آسان ہوجاتی ہیں چنانچہ شعبہ اردو کے موجودہ فعال اساتذہ ڈاکٹر محمد مشتاق احمد‘ڈاکٹرانجم النساء زیبا‘ڈاکٹرتاج النساء اور ڈاکٹر نصیر الدین منشاوی نے شعبہ اردو کے موجودہ صدر پروفیسر سی گنیش پرنسپل آرٹس کالج عثمانیہ یونیورسٹی اور شعبہ کے سابقہ صدر پروفیسر ایس اے شکور یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈی رویندر اور دیگر محبان اردو کی مشاورت سے اس ایک روزہ بین الاقوامی اردو سمینار کے انعقاد کا فیصلہ کیا گیا۔ اور ان سبھی کی شبانہ روز کاوشوں سے یہ ایک روزہ  بین الاقوامی سمینار کامیابی سے ہمکنار ہوا جس کے لیے سبھی منتظمین اور خاص طور سے سمینار کی روح رواں ڈاکٹر انجم النساء زیبا اور ڈاکٹر محمد مشتاق جنرل کنوینرس سمینار قابل مبارکباد ہیں۔شعبہ اردو میں کافی عرصے بعد انٹرنیشنل سمینار کے انعقاد کی اطلاع پاکر مختلف یونیورسٹیوں اور کالجوں سے تعلق رکھنے والے اساتذہ ریسرچ اسکالرس اور محبان اردو کی ایک کثیر تعداد اس دلچسپ اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگ عنوان کو سننے کے لیے یونیورسٹی پہنچ گئی۔صبح کی ٹھنڈی اور خنک ہوا کے باوجود سامعین کمرہ نمبر133کی طرف رواں دواں نظر آئے۔سمینار کے والینٹرس آرٹس کالج کے باب الداخلہ پر سمینار کا بینر لگاتے نظر آئے۔شعبہ اردو کا تمام اسٹاف اپنی اپنی ذمہ داری نبھاتا نظر آیا۔اتحاد اور اتفاق سے ہی سمینار کامیاب ہوتے ہیں۔ پروفیسر سی گنیش پرنسپل آرٹس کالج و صدر شعبہ اردو کے چیمبر میں اس ایک روزہ بین الاقوامی سمینار کا مہمانان خصوصی ڈاکٹر سراج الدین نور متوف ازبیکستان اور پروفیسر یوسف عامر سابق وائس چانسلر جامعہ الازہر مصر اور پروفیسر خواجہ اکرام الدین جواہر لال نہرو یونیورسٹی وسابق ڈائرکٹر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کا خیر مقدم کیا گیا۔ پروفیسر ایس اے شکور‘ ڈاکٹر معید جاوید سابق صدور شعبہ اردو جامعہ عثمانیہ اور پروفیسر ڈی رویندر وائس چانسلر اس موقع پر موجود تھے مہمانوں کو جامعہ عثمانیہ کی تاریخ اور اس کی تہذیب سے واقف کرایا گیا۔ مہمانوں کی ضیافت کے بعد ایک روزہ بین الاقومی سمینار کے افتتاح کے لیے سبھی مہمان سمینار ہال کی جانب رواں دواں ہوئے۔ جہاں ڈاکٹر انجم النساء زیبا کی نگرانی میں جامعہ عثمانیہ کے طلباء نے یونیورسٹی کے قدیم یونیفارم کالی شیروانی اور سرخ رومی ٹوپی پہنے مہمانوں کا گلو ں کی پیشکشی کے ذریعے خیر مقدم کیا۔ڈاکٹر انجم النساء زیبا استاد شعبہ اردو جامعہ عثمانیہ نے سبھی مہمانوں کو اردو زبان کی مٹھاس سے مزین خوبصورت اشعار کے ساتھ شہ نشین پر مدعو کیا۔ طلباء کی جانب سے مہمانوں کو گلدستے پیش کیے گئے۔ افتتاحی کلمات پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر انجم النساء زیبا نے کہا کہ عثمانیہ یونیورسٹی اپنے اعلیٰ تعلیمی معیارات کے لیے ساری دنیا میں مشہور ہے۔آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹیوں کی طرح جامعہ عثمانیہ کے فارغین بھی ملک اور بیرون ملک اعلیٰ و ارفع خدمات انجام دے رہے ہیں۔اور ساری دنیا میں جامعہ عثمانیہ کی شناخت قائم کی ہے۔سمینار کے افتتا ح کے طور پر وائس چانسلر عثمانیہ یونیورسٹی پروفیسر ڈی رویندر نے اپنے خطاب میں کہا کہ عثمانیہ یونیورسٹی نظام حیدرآباد کی علمی دانشوری کی اعلیٰ مثال ہے جس کا قیام 1917 ء میں عمل میں آیا۔1947ء تک اس یونیورسٹی کا ذریعہ تعلیم اردو تھااوراردو زبان میں بھی طب قانون انجنیرنگ اور دیگر علوم کی تعلیم دی جاتی تھی۔آج قومی و بین الاقوامی سطح پر یونیورسٹی اپنے اعلیٰ معیارات کے سبب مقبول ہے۔ یونیورسٹی کے مختلف شعبوں کی طرح شعبہ اردو میں بھی مستقل اساتذہ نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بہت جلد حکومت کے رہنمایانہ خطوط کی روشنی میں شعبہ اردو کے بہ شمول یونیورسٹی میں بڑے پیمارے پر مستقل تقررات عمل میں لائے جائیں گے۔ پروفیسر ڈی رویندر نے شعبہ اردو کو مبارکباد پیش کی کہ مستقل اساتذہ کی عدم موجودگی کے باوجود شعبہ ترقی کی سمت گامزن ہے اور آج اس شعبہ کے نوجوان اساتذہ یہ انٹرنیشنل اردو سمینار منعقد کر رہے ہیں۔

پروفیسر ڈی رویندر نے یونیورسٹی کے بانی نظام حیدرآباد میر عثمان علی خان کے اس فرمان کا حوالہ دیا جس کے تحت اس یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ اس فرمان کا ترجمہ کرواکر آرٹس کالج کے باہر لگوایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ کچھ عرصے سے جامعہ عثمانیہ کا یوم تاسیس بھی منایا جارہا ہے جس میں یونیورسٹی کے بانی کو بھر پور خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔پروفیسر ڈی رویندر نے ازبکستان اور مصر سے آئے بیرونی مہمانوں کا خیر مقدم کیا اور پروفیسر خواجہ اکرام الدین سے اظہار تشکر کیا کہ عثمانیہ یونیورسٹی میں ان مہمانوں کی آمد سے یہ بین الاقوامی سمینار منعقد ہورہا ہے انہوں نے تمام شرکاء کو مبارکباد پیش کی ار کہا کہ اردو زبان و ادب میں انسانی اقدار اور مساوات کے اظہار سے وقت کی اس اہم ضرورت والے موضوع سے استفادے کا موقع ملے گا۔ شعبہ کے صدر اور اساتذہ کی جانب سے وائس چانسلر ڈی رویندر کی شال پوشی کی گئی اور انہیں چارمینار کے ماڈل پر مبنی مومنٹو پیش کیا گیا۔پروفیسر ایس اے شکور سابق صدر شعبہ اردو عثمانیہ یونیورسٹی نے سمینار کے افتتاحی اجلاس  سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس سمینار کے لیے جس موضوع کا انتخاب کیا گیا ہے اس کی ضرورت عالمی اور ہندوستان کی سطح پر بھی ہے۔انہوں نے کہا کہ آج اقدار بدل گئی ہیں اور نفرت کے ماحول کو محبت سے بدلنا ہے تو ہمیں انسانی اقدار کی پاسداری کرنا ہوگا۔ جس کا سبق ہمیں اردو شعر و ادب سے ملتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت تلنگانہ نے اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیا ہے۔عثمانیہ یونیورسٹی میں تعلیم کی ابتداء اردو زبان میں ہی ہوئی۔ایک مرتبہ پھر اس جامعہ کی اردو شناخت کو بحال کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ شعبہ اردو میں ایک زمانے میں 16مستقل اساتذہ ہوا کرتے تھے۔ اساتذہ کی وظیفہ پر سبکدوشی کے بعد اب ایک بھی مستقل لیکچرر نہیں ہے۔ جس کی جانب یونیورسٹی حکام اور حکومت کو توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ شعبہ اردو کی عظمت رفتہ کو بحال کیا جاسکے۔بین الاقوامی سمینار کے مہمان خصوصی پروفیسر یوسف عامر سابق وائس چانسلر جامعہ الازہر نے تقریب سے خصوصی طور پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنے گھر ہی آیا ہوں مصر اور ہندوستان قدیم تہذیبوں اور ثقافتوں کا سنگم ہیں۔جامعہ الازہر دنیا کی قدیم یونیورسٹی ہے 1080ء سے قبل قائم ہوئی۔یہاں دینی اور عصری علوم میں تحقیق ہوتی ہے۔سائنس و ٹیکنالوجی میں یونیورسٹی کی کارنامے ہیں۔گرائجویشن‘ پی جی اور پی ایچ ڈی کے علاوہ ترجمے کا ادارہ بھی قائم ہے۔اردو زبان ہندوستان کی مٹی سے بنی ہے۔ساری دنیا میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔اردو زبان ہندوستانی تہذیب و ثقافت کو ساری دنیا میں عام کر رہی ہے۔اس زبان میں ہندوستان کی وراثت موجود ہے۔عظیم ہندوستان کی قومی تہذیب اس میں مضمر ہے۔مشترکہ تہذیب کی تعمیر میں ملک کے تمام طبقات نے حصہ لیا ہے۔زبان کا مذہب نہیں ہوتا لیکن زبان مذہب کی حفاظت کرتی ہے۔تمام مذاہب انسانیت کی خدمت کرتے ہیں۔اردو میں ولی‘نظیر اور دیگر نے اپنی شاعری کے ذریعے انسانی اقدار کی ترجمانی کی ہے۔ نظیر کی نظم آدمی نامہ انسانیت کا منشور اور اخلاق نامہ ہے۔ہر زمانے میں ہر جگہ نظیر کے انسانیت نامے سے استفادہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔دنیا میں انسان اشرف المخلوقات کا درجہ رکھتا ہے استاد باپ جیسا ہوتا ہے۔اردو زبان و ادب انسانی اقدار سے بھری پڑی ہے۔ لیکن اردو زبان سیکھنے والے کم ہوتے جارہے ہیں۔اردو کو عوام سے مربوط کرنا چاہیے اردو زبان و ادب کا ازبک زبان میں ترجمہ ہورہا ہے۔دکنی پڑھائی جارہی ہے اردو لغت تیار کی جارہی ہے اردو زبان کو دنیا کی مختلف جامعات میں پڑھایاجارہا ہے اور اس زبان میں عالمی سطح پر تحقیق کا کام جاری ہے۔ڈاکٹر معید جاوید سابق صدر شعبہ اردو نے تقریب سے خطاب کیا اور اردو شعرو ادب میں پائی جانے والی قدروں کو عملی زندگی میں استعمال کرنے پر زور دیا اور کہا کہ اردو شاعری نے انسانی اقدار کو ہر زمانے میں پروان چڑھایا ہے۔ازبکستان سے آئے ایک اور مہمان خصوصی ڈاکٹر سراج الدین نور متوف نے کہا کہ تاشقند کے شعبہ اردو میں اردو پڑھائی جاتی ہے۔ہندوستانی اساتذہ یہاں اردو پڑھانے کے لیے آتے ہیں پروفیسر قمر رئیس نے فروغ اردو کے لیے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔انہوں نے کہا اردو شعر و ادب خاص طور سے اردو کہاوتوں میں بھی انسانی اقدار موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اردو زبان میں موجود انسانی اقدار کے سرمایے کو نئی نسل تک پہنچایا جائے۔ اس انٹرنیشنل سمینار کو یقینی بنانے کی روح رواں شخصیت پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین صاحب جواہر لال نہرو یونیورسٹی تھے جنہوں نے شمال اور جنوب کے اردو روابط کو بہتر بنانے کے طور پر جامعہ عثمانیہ سے مسلسل اپنا تعلق قائم رکھا اس سے قبل بھی انہوں نے بلقیس بیگم یادگاری لیکچر شعبہ اردو میں پیش کیا تھا۔ انہوں نے اس ایک روزہ بین الاقوامی اردو سمینار کا کلیدی خطبہ پیش کیا۔ اپنی پر مغز گفتگو میں انہوں نے کہا جس نے اردو کو سیکھا اس نے ہندوستان کو سمجھا۔ زبان کا تعلق معاش سے بالکل نہیں ہے۔ فراق نے قوموں کے اختلاط کی بات کی ہے۔ سرزمین ہند پر اقوام عالم کے قافلے آتے گئے اور ہندوستان بنتا گیا۔آج گم ہوتی ہوئی انسانیت کا احیاء کرنے کی ضرورت ہے۔رواداری کو لانا ہے انسان مٹی سے بنا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ انسانی اقدار اور مساوات کو اپنی زندگیوں میں لائیں۔

            بستی میں اپنی ہندو مسلمان جو بس گئے                 انسان کی شکل دیکھنے کو ہم ترس گئے

            دل وہ نگر نہیں پھر آباد ہوسکے                         پچھتاؤگے سنو یہ بستی اجاڑ کر

جعفر زٹلی نے کہا تھا کہ انسان انسان سے ڈرنے لگا ہے یہ کیسا دور آگیا ہے۔ نظیر کی نظم آدمی نامہ آدمیت اور انسانیت کی تعلیم دیتی ہے۔ہر جگہ آدمی ہے آدمیت نہیں ہے یہاں آدمی ہی آدمی کا شکار ہے۔ انسان توہیں انسانیت غائب ہے۔

            گھروں پر نام ہر ناموں پر عہدے تھے    بہت تلاش کیا کوئی آدمی نہیں ملا

آج کے انسان کو محبت کی ضرورت ہے۔ پروفیسر خواجہ اکرام نے اردو کے شعری سرمایے سے بہت سے دلچسپ اشعار پیش کیے انہوں نے طلبائے جامعہ عثمانیہ سے بھی اشعار سنے اور انسانی اقدار و مساوات کو اجاگر کیا۔ پروفیسر خواجہ اکرام الدین کے کلیدی خطبے کو سامعین نے بہت پسند کیا۔ سمینار کے صدارتی کلمات پروفیسر سی گنیش پرنسپل آرٹس کالج و صدر شعبہ اردو نے میں پیش کیے اور کہا کہ میں فخر سے کہتا ہوں کہ شعبہ اردو زائد از نصابی سرگرمیوں میں پیش پیش ہے۔ پروفیسر ایس اے شکور کی رہبری و رہنمائی میں شعبہ اردو کے کام انجام پارہے ہیں۔آج کا یہ انٹرنیشنل سمینار بغیر کسی بجٹ کی منظوری کے منعقد ہورہا ہے جو شعبہ اردو کے موجودہ اساتذہ کے عزم و حوصلے کو ظاہر کرتا ہے۔سمینار کی کامیابی میں سبھی کی مشترکہ کوششوں کا دخل ہے۔ انہوں نے سمینار کے موضوع کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے کہا کہ انسانی اقدار پامال ہورہی ہیں اور ہمیں سنجیدہ سماج کی تشکیل کے بہتر انسانی اقدار و مساوات کو سماج میں عام کرنا ہوگا۔ہمیں پہلے انسان بننا ہے اور پھر انسانیت کا پرچار کرنا ہے۔عثمانیہ یونیورسٹی میں دنیا بھر کے ممالک سے آئے طلباء تعلیم حاصل کر رہے ہیں اس عالمی سطح پر شہرت کی حامل یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں منعقد ہونے والے اس بین الاقوامی سمینار میں شرکت کے لیے بیرون ملک سے آئے مہمانوں اور پروفیسر خواجہ اکرام صاحب کا خیر مقدم ہے اور اظہار تشکر بھی کہ انہوں نے اس مادر علمیہ کا دورہ کیا اور ایک اہم موضوع پر اپنی بیش قیمت آراء کا اظہار کیا۔ افتتاحی اجلاس کے اختتام پر مہمانوں کو یادگاری مومنٹو پیش کیے گئے اور ان کی شال پوشی اور گلپوشی کی گئی۔ شعبہ اردو کے استاد ڈاکٹر مشتاق احمد نے افتتاحی اجلاس میں شرکت کرنے والے سبھی مہمانوں اور سمینار میں شرکت کے لیے آئے ریسرچ اسکالرز اور اساتذہ سے اظہار تشکر کیا۔ افتتاحی اجلاس میں ڈاکٹر تاتار خان‘ ڈاکٹر نکہت آرا شاہین‘ ڈاکٹر علی بازہر ہما ایڈیٹر ماہنامہ تلنگانہ‘ سراج الدین ریسرچ اسکالر‘شوکت فہیم ریسرچ اسکالر اور محبان اردو کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ افتتاحی اجلاس کے اختتام کے بعد طلباء اور اساتذہ نے مہمانوں سے ملاقات کیاور یادگاری تصاویر لی گئیں۔ ظہرانے کے بعد دوپہر میں مقالوں کی پیشکشی کا تکنیکی سیشن کا آغازہوا۔ اس اجلاس کی صدارت پروفیسر فضل اللہ مکرم صدر شعبہ اردو یونیورسٹی آف حیدرآباد نے کی جب کہ مہمان خصوصی کے طور پر پروفیسر سیدہ طلعت سلطانہ اگزیکٹیو ممبر عثمانیہ یونیورسٹی اور پروفیسر محمد شوکت حیات سابق ڈین فیکلٹی آف آرٹس ڈاکٹر بی آر امبیڈکر اوپن یونیورسٹی حیدرآباد تھے۔ ڈاکٹر نصیر الدین منشاوی اور ڈاکٹر محمد ناظم علی نے نظامت کے فرائض انجام دئیے۔مقالہ نگاروں میں مرکزی و ریاستی حکومت کی جامعات کے اساتذہ ریسرچ اسکالرز اور شعبہ اردو کے اسکالرس شامل تھے۔تکنیکی سیشن کا  پہلا مقالہ ڈاکٹر محمد ناظم علی سابق پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج موڑتاڑ نظام آباد و اکیڈیمک سنیٹ ممبر تلنگانہ یونیورسٹی نے حالی کی شخصیت اور کلام میں انسانی اقدار و مساوات پیش کیا۔ ڈاکٹررفیعہ سلیم اسسنٹ پروفیسر اردو یونیورسٹی آف حیدرآباد نے ”اکیسویں صدی کے ناولوں میں انسانی اقدار‘ ڈاکٹر محمد موسیٰ قریشی اسوسی ایٹ پروفیسر اردو و چیرمین بورڈ آف اسٹڈیز تلنگانہ یونیورسٹی نے ”ہندوستان میں مساوات اور یکجہتی کے فرو غ میں اردو کا حصہ“  شریمتی نمرتا باگڈے اسوسی ایٹ پروفیسر و چیرمین بورڈ آف اسٹڈیز شعبہ مراٹھی عثمانیہ یونیورسٹی نے”مراٹھی مسلمانوں کے کلام میں انسانی اقدار“ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج ظہیر آباد نے ”رباعیات حالی اور اخلاقی قدریں“ ڈاکٹر اے آر منظر اسسٹنٹ پروفیسر اردو یونیورسٹی آف حیدرآباد نے ”پریم چند کے افسانوں میں اخلاقی اقدار“ ڈاکٹر حمیرا سعید صدر شعبہ اردو و پرنسپل گورنمنٹ ویمنس ڈگری کالج سنگاریڈی نے ”انسانی اقدار نسائی حسیت کے حوالے سے“ واحد نظام آبادی نے”اردو شاعری میں انسانی اقدار و مساوات“ شائستہ ناز لیکچرر اردو اسلامیہ کالج حیدرآباد نے ”معاشرتی ترقی میں اردو ادب کا کردار“ ڈاکٹر عائشہ بیگم صدر شعبہ اردو گورنمنٹ ڈگری کالج ظہیر آباد نے ”اردو اور قومی یکجہتی انسانی اقدار کے حوالے سے“ حمیدہ بیگم ریسرچ اسکالر جامعہ عثمانیہ نے ”افسانہ چوتھی کا جوڑا کی تفہیم صالحہ عابد حسین کے حوالے سے“ ڈاکٹر رضوانہ بیگم صدر شعبہ اردو سٹی کالج حیدرآباد نے ”پریم چند کا ناول گؤدان اور انسانی اقدار“ ڈاکٹر میمونہ بیگم صدر شعبہ اردو گورنمنٹ ڈگری کالج چنچل گوڑہ حیدرآباد نے ”اردو ادب میں انسانی اقدار و مساوات گؤدان ناول کے حوالے سے“  ڈاکٹر ناظم الدین منور اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو ساتاواہانا یونیورسٹی کریم نگر نے”نظیر اکبر آبادی کے کلام میں انسانی اقدار“ آسیہ تحسین مولانا آزاد نشینل اردو یونیورسٹی  نے ”خطوط نگاری اور انسانی اقدار“ موضوعات پر معلوماتی مقالے پیش کیے اس کے علاوہ اس بین الاقوامی سمینار میں مقالے داخل کرنے والوں میں ڈاکٹر محمد عبدالقوی اسسٹنٹ پروفیسر اردو تلنگانہ یونیورسٹی‘ مصطفی علی سروری شعبہ صحافت و ماس میڈیا مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی‘ ڈاکٹر فریدہ بیگم اورینٹل اردو‘ تبسم آرا اورینٹل اردو‘ شفیع الدین ظفر اورینٹل اردو‘ کلیم محی الدین صدر شعبہ اردو گورنمنٹ ڈگری کالج برائے اناث کریم نگر‘ڈاکٹر خواجہ مخدوم محی الدین امبیڈکر یونیورسٹی‘ ڈاکٹر محمد انور الدین صدر شعبہ اردو گورنمنٹ ڈگری کالج گولکنڈہ‘ ڈاکٹر شیخ عبدالکریم صدر شعبہ اردو گورنمنٹ ڈگری کالج فلک نما‘ محمد وحیدا لدین صدر شعبہ اردو اندرا پریا درشنی کالج نامپلی‘ محمد احمد وحید ریسرچ اسکالر عثمانیہ یونیورسٹی‘ ڈاکٹر نوری خاتون لیکچرر اردو تلنگانہ مہیلا وشوا ودیالیم حیدرآباد‘سید احمد حسینی ریسرچ اسکالر عثمانیہ یونیورسٹی‘ ایم اے خالق ریسرچ اسکالر عثمانیہ یونیورسٹی‘ ڈاکٹر سعدیہ سلیم سینٹ جانس کالج آگرہ اور دیگر اسکالرس شامل ہیں۔ مقالوں کی پیشکشی کے بعد پروفیسر سیدہ طلعت سلطانہ اگزیکٹیو کونسل ممبر عثمانیہ یونیورسٹی نے کہا کہ تمام مقالے محنت سے لکھے اور پیش کیے گئے۔ موجودہ زمانے میں انسانی اقدار کی ترویج کی شدید ضرورت ہے ۔ پروفیسر شوکت حیات نے تمام مقالہ نگاروں کو مبارکباد پیش کی اور سمینار کے کامیاب انعقاد پر صدر شعبہ اردو اور اساتذہ شعبہ اردو کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔پروفیسر فضل اللہ مکرم نے صدارتی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جامعہ عثمانیہ میں کئی یادگار سمینار منعقد ہوئے۔انہوں نے کہا کہ ادب کے معنی انسان کے ہیں۔ حیوان کا ادب سے کوئی تعلق نہیں۔ امداد باہمی اور مساوات کو فروغ دیا جائے۔ ظلم و ستم کا خاتمہ ہو۔ اور حقوق انسانی کی بازیافت ہو انہوں نے تمام مقالہ نگاروں کو مبارکباد پیش کی اور کہا کہ سمینار کے موضوع سے متعلق مقالات پیش کیے گئے۔ایک روزہ بین الاقوامی سمینار کے اختتامی اجلاس کی صدار ت پروفیسر سی گنیش صدر شعبہ اردو نے کی انہوں نے تمام بیرونی قومی و مقامی مہمانوں سے اظہار تشکر کیا اور کہا کہ سب کی اجتماعی کاوشوں سے یہ سمینار کامیابی سے ہمکنار ہوا انہوں نے تجویز رکھی کہ سمینار میں پیش کردہ مقالوں کے پیغام کو دیگر زبانوں میں ترجمے کے ذریعے عام کیا۔ انہوں نے کہا کہ مقالات کو کتابی شکل میں شائع کیا جائے۔ پروفیسر شوکت حیات نے مقالوں کو کتابی شکل میں پیش کرنے کے لیے رقمی امداد کے طور پر شعبہ اردو کے نام دس ہزار کا چیک بہ طور تحفہ دیا۔ ڈاکٹر فریدہ وقار استاد شعبہ اردو اورینٹل کالج عثمانیہ یونیورسٹی نے بھی دس ہزار کی رقمی امداد کا اعلان کیا۔ پروفیسر سی گنیش صدر شعبہ نے اس تعاون پر اظہار تشکر کیا۔ سبھی مقالہ نگاروں کو اسنادات پیش کیے گئے۔ سمینار کے انعقاد کے لیے خصوصی تعاون کے لیے شعبہ اردو کی جانب سے ڈاکٹر محمد ناظم علی اور ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کو مومنٹو بھی پیش کیے گئے۔  شعبہ اردو کے اساتذہ ڈاکٹر مشتاق‘ ڈاکٹرانجم النساء زیبا‘ ڈاکٹر نصیر الدین منشاوی‘ ڈاکٹر تاج النساء اور عملے کے اراکین سلیمہ بیگم اور اکبر کو پروفیسر گنیش نے شال پیش کی اور مومنٹو دیا گیا۔ریسرچ اسکالرس اور مہمانوں کے ساتھ خصوصی فوٹو سیشن کے بعد ایک روزہ سمینار کا اختتام عمل میں آیا۔ ڈاکٹر تاج النساء نے اظہار تشکر پیش کیا۔ جامعہ عثمانیہ کی خوبصورت عمارت کے پس منظر میں بیرون ملک سے آئے مہمانوں اور ریسرچ اسکالرس نے گروپ فوٹو لیے اس طرح جامعہ عثمانیہ مین اردو ادب میں انسانی اقدار و مساوات کا اختتام عمل میں آیا۔ 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Powered By Blogger