ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کی آپ بیتی
"پل دو پل کی زندگانی" ایک مطالعہ
فوزیہ سلطانہ۔گڈو
پھولپور۔الہ آباد
سفینہ ادب کے شکریہ کے ساتھ
خودنوشت سوانح عمری ہمارے زندگی کے تجربات کی
کتاب ہوتی کیوں آج کے دور میں زندگی جینا اور بہترین عملی زندگی جینا بہت مشکل
ہوتا جارہا ہے جیسے جیسے زمانہ ترقی کررہا ہے ہمارے لیے صحولیات بڑھتی جارہی زندگی
آسان ہونے کے ساتھ ہمارے دور کے مقابلے پہلے کے لوگوں کے پاس کم وسایل ہونے کے
باوجود بھی وہ بہت اچھی پرسکون زندگی جیتے تھے ہم سے زیادہ خوشحال رہتے تھے۔ آج کے
ڈیجیٹل دور میں تمام وسایل کے باوجود زندگی بہت بے سکون ہے۔ ایک کڑوا سچ"آج
کل آن لائن سب کچھ مل جاتا ہے۔ پیار بھی، دوستی بھی،درد بھی،دھوکا بھی۔ زندگی
خاموش ہے آن لائن کتنا شور ہے۔ انسان جتنا آنلاین ہوتا جارہا ہے انسانیت اتنی ہی
آف لائن ہوتی جارہی ہے۔
ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کی آپ بیتی "پل دو پل کی
زندگانی" ان کی پچاس سالہ زندگی کی روداد ہے جس میں انہوں نے کئ عنوان باندھے
ہیں اور اس آپ بیتی کا انتساب اپنے والد مرحوم محمد ایوب فاروقی صابٓر والدہ
مرحومہ قمر النساء بیگم اور اس آپ بیتی کے ان تمام کرداروں کے نام جن کے فیض تربیت
اور ساتھ نے زندگی کے کٹھن راہوں میں سنبھل کر چلنا اور دوسروں کی مدد کرنا سکھایا۔
ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی" کچھ اس آپ بیتی کے بارے میں"
جو پیش لفظ سے پہلے ہے لکھتے ہیں۔" پل دو پل کی زندگانی" مجھ ناچیز کی
آپ بیتی ہے آپ بیتی تو بڑی شخصیات لکھا کرتی ہیں جن کی زندگی میں کچھ بڑا ہوا ہوں
جو دوسروں کو بتایا جا سکے۔
بہرحال اس آپ بیتی میں اردو سے پڑھ کر آگے بڑھے مجھ نا
چیز کا فسانہ ہے۔"
پیش لفظ میں ڈاکٹر محمد ناظم علی لکھتے ہیں۔"
ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی اردو کے سپاہی ہیں۔ انکی عملی زندگی اردو کے ایسے مجاہد کی
طرح ہے جس نے ناکامی نہیں دیکھی اور جہد مسلسل کے ساتھ زندگی کے عملی میدان میں
کامیابیاں حاصل کرتے رہے۔"
اس آپ بیتی میں اسلم فاروقی نے کئ عنوانات قائم کیۓ
ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔
*کچھ
خاندان کے بارے میں، اسکول کی یادیں، ہائ اسکول، حفظ اور انٹر کی تعلیم، ڈگری اور یونیورسٹی
کی تعلیم، شادی خانہ آبادی، ملازمت، والدین کے سایۂ سے دوری، تصنیف تالیف و ترجمہ
نگاری، ٹیکنالوجی کے ساتھ سفر، ریڈیو کی دنیا، اردو زبان و ادب سے وابستگی، مزہبی
وابستگی اور حج، زندگی کے دیگر رویے جیسے زیلی عنوانات ہیں ۱۳۰ صفحہ پر اب تک کی زندگی
کی روداد قلم بند کی ہے۔
یہ روداد خاندان آباؤ اجداد سے شروع ہوتی ہے پردادا اور
دادا جان دادی مرحومہ جنہوں نے شوہر کے انتقال کے بعد بھی اپنے سارے بچوں کی بہترین
انداز میں پرورش کی تعلیم دی چاچا ، تاؤں پھوپھا، پھوپھی ماما مامی سب کا بہترین
انداز میں مفصل بیان ہے اپنے قدیم علاقے کے مناظر اور واقعات بیان کیے جو آنکھوں
کے سامنے چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ بھائیوں بہنوں سب کا احوال بیان کیا ہے ایک بہن
تقسیم کے بعد پاکستان میں مقیم ہیں اور پورے خاندان کے افراد درس تدریس سے وابستہ
ہیں اور بیرون ملک میں بھی فاروقی خاندان نام روشن کررہا ہے اور اسلم فاروقی صاحب
لکھتے ہیں۔" خاندان کے بچے سعودی عرب، آسٹریلیا، امریکہ اور کناڈا منتقل ہوگۓ
ہیں اس طرح اب ہمارا خاندان دنیا بھر میں منتقل ہوگیا ہے۔"
ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کی بسم اللہ شریف کی رسم چار سال چار ماہ چار
دن پر ہوئ تھی تب سے پڑھنے اور سیکھنے کا سلسلہ جاری ہے اقتباس پیش نظر ہیں :-
"میری
بسم اللہ کی تقریب میں لندن کے ماموں لیاقت علی نے شرکت کی تھی۔اور دعوت میں
خاندان کے لوگ جمع ہوۓ
تھے۔"
عصری تعلیم کی شروعات نظام آباد کی عظیم و مقبول درس
گاہ آغا خان اردو میڈیم اسکول سے شروع ہوئ جو بعد میں گولڈن جوبلی اسکول کہلایا جو
اب بھی نظام آباد میں واقع ہے پھر جو علم کا چراغ من میں روشن ہوا وہ مزید روشنی
کرتا جارہا یہ علم کی شمع بہت سے گھروں اور طلباء کے لیے مستقبل اجالا دکھا رہی ہے
اور مزید زندگیوں کو علم کی روشنی سے روشناس کررہی ہے۔
ہائ اسکول میں علاقے میں پوزیشن حاصل کی اور میٹرک اور
حفظ ایک ساتھ مکمل کیا حفظ قرآن کے لیے حیدرآباد سے ہردوئی اترپردیش میں داخلہ لیا
اور حفظ کیا بی اے، ایم اے، بی ایڈ، ایم فل اور 2004ء میں حیدرآباد یونیورسٹی سے پی
ایچ ڈی دو سال میں مکمل کی کچھ دن اخبارات میں مترجم کام کیا پھر جونیر لکچرر،
لکچرر اور پرنسپل کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ انہیں گولڈن جوبلی اسکول کے ایک
استاد نے پیشانی دیکھ کر کہا تھا تم بہت ترقی کروں گے انکی بات سچ ثابت ہوئ۔
انکی شادی عزرا سے ہوئ اور شادی کے بعد جونیئر لکچرر
لکچرر کی نوکری ملی اپنے کالج سے میراث میگزین کی بھاگ دوڑ سنبھالی ہے۔ کالج کے
پرنسپل ہیں بچیں بھی سب پڑھ رہیں ہیں ایک بیٹا حفظ بھی کررہا بچی چھوٹی ہے پینٹنگ
میں مہارت رکھتی والد صاحب 2018 اور والدہ صاحبہ 2021 میں انتقال کرگئ جو ایک
خسارہ ہے
"جانے
والے کبھی نہیں آتے
جانے والوں کی یاد آتی ہے"
ایم فل کے بعد اخبارات میں ترجمہ نگاری سے لیکر اب تک
دس سے گیارہ کتب شائع ہوچکی ہے جن میں۔قوس قزع،مضامین نو، سائنس نامہ،عزیز احمد کی
ناول نگاری،برطانیہ میں اردو اور حبیب حیدرآبادی،دریچے،کہکشاں، اردو کی منتخب نظمیں،گلدستہ
نقد، ادب و ادیب،اخلاقیاتی اور انسانی قدریں، اردو اکیڈمی سے شائع ہوتی رہی ان شاء
اللہ آگے بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا اکثر مضامیں اردو کے بڑے رسائل میں شائع ہوتے
رہتے ہیں۔ ٹکنالوجی کا بھرپور استمعال بھی انہیں بہت اچھے سے آتا ہے جسکا وہ بخوبی
استعمال کرتے ہیں۔ انکے سفر حج جو انہوں نے 2008میں کیا اسکی روداد بھی اس آپ بیتی
میں درج ہے "مذہبی وابستگی اور حج" عنوان سے اور ہمیشہ مطالعے میں مشغول رہتے ہیں۔ ادب کے سپاہی
کی طرح درس تدریس میں مشغول رہتے ہیں۔ اردو کا ایک طالب علم ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی
اپنی آپ بیتی میں رقم طراز ہیں۔"آج زندگی کی نصف صدی کی تکمیل کے بعد جب ماضی
پر نظر ڈالتا ہوں تو اندازہ ہوتا ہے کہ مادری زبان اردو ہی میرا اوڑھنا بچھونا رہی۔اردو
سے پہلی جماعت سے پی ایچ ڈی تک تعلیم اردو سے روزگار سے جڑنے اور بہ طور اردو پنڈت
پھر جونیئر و ڈگری لکچرر اردو کی ملازمت اور اردو کے استاد کا گورنمنٹ ڈگری کالج
کا پرنسپل بن جانا یہ میرے لیے اردو زبان کی طرف سے ملنے والے اعزازات سے کم نہیں۔"
یہ اقتباس ہم اردو کے طالب علموں کو یہ بتاتے ہیں کی
اردو کو کتنا بھی ختم کرنے کی کوشش کی جاۓ
وہ ختم نہیں ہوگی وہ اپنے دم سے زندہ ہے اردو کو جتنا ڈجیٹل کیا جاۓ
مفید ہے اسے زیادہ سے زیادہ ڈجیٹل کرنا
چاہیے اردو زبانوں کی زبان ہے اس میں بھرپور روزگار ہیں بس اردو کے طلباء مایوس نا
ہوں اور اپنی اسکلز کو مذید نکھارے۔ اردو کے ساتھ انگلش، ہندی دیگر زبانوں پر بھی
مہارت حاصل کریں۔ ہر امتحان کے مطابق سلیبس کو اچھے سے پورا پیٹرن پر غور و فکر کریں
محنت کریں۔آپ جس کے لیے بھی کوشش کرتے ہیں۔آخر وہ آپ کو ملتا ہی ہے۔ اللہ کریم
قرآن میں بھی ارشاد فرماتا ہے۔ "تم جس کی سعی کرتے ہو وہی تمہیں ملتا
ہے" یہ آپ بیتی پل دو پل کی زندگانی" کے مطالعے کے بعد یہ بات مجھ پر عیاں
ہوئ زندگی میں پریشانیاں آتی ہیں ہم اپنے خواب سے ہٹ جاتے ہیں پر پھر اس خواب کو
دوبارہ کیسے جینا ہے اور اپنے خواب کو مقدر کیسے بنانا یہ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی
صاحب کی پچاس سالہ زندگی کے نشیب وفراز کی روداد ہے اس میں ہمیں کہیں نا کہیں اپنی
کہانی بھی دکھتی اور ہم اردو طلباء کو ہمت دیتی ہمیں کیسے اپنے عزم کو مضبوط کرکے
لڑنا ہے ان شاء اللہ کامیابی ہمارے بھی قدم بوس ہوگی۔
آپ بیتی میں جو نثر استمعال کیا گیا ہے وہ بہت سہل
ممتنع ہے کہیں بھی بوجھل پن نہیں بیانیہ بہت خوبصورت ہے۔ انکی ساری کتابوں کی طرح "پل دو پل کی زندگانی"
بھی اچھی تصنیف ہے ثابت ہوتی ہے۔ قابل مطالعہ ہے۔ اردو ادب کے قاری کو اس آپ بیتی
کا ایک مرتبہ ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔
فوزیہ سلطانہ۔گڈو
پھولپور۔الہ آباد
سفینہ ادب کے شکریہ کے ساتھ
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔