اپنی پسند کی کتاب ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے اوپر امیج پر کلک کریں
ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی
کی آپ بیتی پل دو پل کی زندگانی ایک جائزہ
ڈاکٹر نور محمدی حیدرآباد
ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کا نام موجودہ
دور کے اردو حلقوں میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ وہ فی الحال گورنمنٹ ڈگری کالج
ظہیر آباد میں پرنسپل کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ وہ اردو کے اچھے ادیب‘صحافی‘مترجم
اور ماہر کمپیوٹر ہیں۔ انہوں نے اپنی آپ بیتی شائع کی ہے۔ ان کی آپ بیتی”پل دو پل
کی زندگانی“ میں مصنف نے ان کی زندگی کے ابتدائی ایام سے لے کر عصر حاضر کے تمام
واقعات‘مشاہدات‘ کیفیات‘حالات ماحول‘تہذیب و تمدن غرض ہر تمام پہلوؤں اور زندگی کے
لمحات کو صفحہ قرطاس پر عام فہم اسلوب میں بیان کیا ہے۔ جو دلچسپ اور معلوماتی ہے۔
ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کے آباء و اجداد کا تعلق نظام آباد کے محلہ پھولانگ سے ہے۔
نظام آباد ریاست تلنگانہ کا وہ شہر ہے جس میں ایشیاء کی سب سے بڑی شوگر فیکٹری
نظام شوگر فیکٹری ہے۔ جو اس شہر کی شہرت کا باعث بھی ہے۔ مگر افسوس کہ یہ فیکٹری
آج زبوں حالی سے دوچار ہے۔ اس فیکٹری کے دوبارہ احیاء کے سابقہ حکومت کے وعدوں نے
وہاں کے بے روزگاروں اور سابقہ ملازمین کو امیدیں دلائیں تاہم وہ وعدے سیاسی حربے سے
زیادہ کچھ نہیں تھے۔ یہ فیکٹری ہنوز دوبارہ کارکرد ہونے کی منتظر ہے۔ جس کا ذکر ہمیں
ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کی آپ بیتی سے ہوتا ہے۔ مصنف اور ان کے گھرو والوں بھائی
بہنوں کو اپنے محلہ پھولانگ نظام آباد میں واقع اپنے قدیم آبائی مکان جس کا نام یعقوب
منزل تھا آج بھی یاد ہے۔ اور تیس چالیس سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود آج بھی
مصنف اور ان کے افراد خاندان کو اس مکان کا نام اور نمبر یاد ہے۔ یہ مکان بقول
مصنف ان کے خوابوں میں آتا ہے جو انسانی جبلت کا مظہر ہے۔جو یادیں کم سنی میں
ہمارے اذہان میں رچ بس جاتی ہیں وہی باتیں خوابوں میں اکثر دکھائی دیتی ہے۔ بچپن
کے گھر سے متعلق یہی پہلو مصنف کے ساتھ بھی پیش آتا رہا ہے۔ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی
نے نظام آباد کے اپنے آبائی مکان میں گزارے بچپن کے ایام اور وہاں کی تمام یادوں
کو ایک لڑی میں پرودیا جیسے کویلو کا مکان‘خاندان کے بزرگوں کا پیشہ زراعت‘دھان
اور گنے کی گھر آمد‘دعوتیں‘ پرانے زمانے کے پکوان کے طور طریق‘دادی ما ں اور والدہ
کی مہمان نوازی اور گیارہویں کی دعوت کا بھی ذکر اس آپ بیتی میں کیا ہے۔ اس آپ بیتی
میں ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی نے بچپن میں اپنی رسم بسم اللہ خوانی کی یادوں کو
دلچسپ انداز میں پیش کیا ہے۔جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی یاداشت مضبوط ہے اور
چار سال کی عمر میں ہونے والی تقریب کو انہوں نے اس آپ بیتی میں بیان کیا ہے۔ اس
کے علاوہ اس آپ بیتی میں انہوں نے خاندان کے سبھی افراد کا تعارف معہ ناموں اور
رشتوں کے ساتھ پیش کیا ہے۔ بچپن میں ان کے محلہ پھولانگ ان کے دادا کے افراد
خاندان کے وطن جانکم پیٹ اور بودھن کے بارے میں بھی دلچسپ اور تاریخی باتوں کو پیش
کیا ہے۔ بودھن کے حوالے سے انہوں نے اورنگ زیب کا دلچسپ واقعہ قلم بند کیا ہے۔جب
کہ زندگی میں پہلی مرتبہ دکن کی طرف کوچ کرتے وقت اورنگ زیب کی صبح کی نماز قضا
ہوگئی تو انہوں نے فارسی میں کہا تھا کہ ایں جائے بودنیست یعنی یہ جگہ منحوس ہے۔
ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی نے آپ بیتی میں اپنی تعلیم کا حال مفصل لکھا ہے۔ ان کی پہلی
جماعت سے پی ایچ ڈی تک تعلیم اردو میڈیم میں ہوئی تھی جو اردو میڈیم طلباء کے لیے
مثال ہیں انہوں نے لکھا کہ نظام آباد کے آغا خان اسکول جو اب گولڈن جوبلی اسکول
کہلاتا ہے ان کی پرائمری کی تعلیم ہوئی تھی جو آگے چل کر یونیورسٹی آف حیدرآباد سے
اردو میں پی ایچ ڈی کرنے تک جاری رہتی ہے۔ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی پڑھائی میں ذہین
تھے یہی وجہہ ہے کہ ہر جماعت میں وہ اول آتے رہے دسویں جماعت میں وہ امتیازی
نشانات سے کامیاب ہوئے اور نظام آباد کے ایس ایس سی اردو میڈیم کامیاب ہونے پر
مقامی تنظیم نے انہیں نقد انعام دیا تھا۔ ان کی کامیابیوں کا سلسلہ ایم اے اور پی
ایچ ڈی تک جاری رہا۔ ایم اے اردو کی تکمیل پر انہیں گولڈ میڈل کا اعزاز دیا گیا۔
ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی نے اپنی آپ بیتی میں لکھا کہ ہائی اسکول کی تعلیم کے دوران
ان کے گھر والوں کی خواہش پر انہیں دینی تعلیم یعنی حفظ قرآن کے لیے داخل مدرسہ کیا
گیا۔ انہوں نے حفظ قرآن کے ساتھ آگے چل کر اردو میں پی ایچ ڈی کی اور اس طرح انہوں
نے دین و دنیا کی تعلیم میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ اور یہ ثابت کیا کہ ایک حافظ
قرآن دین کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی ترقی کرتا ہے۔ جس کی مثال مصنف خود ہیں۔
ڈاکٹر
محمد اسلم فاروقی نے اپنی آب بیتی”پل دو پل کی زندگانی“ میں تعلیم کے بعد اپنی
ملازمت کے احوال بیان کیے کہ کس طرح انہوں نے خانگی اسکول میں کلرک کی ملازمت سے
اپنی ملازمت کا آغاز کیا پھر لیڈنگ اسکول اور گورنمنٹ ہائی اسکول گولکنڈہ میں اردو
پنڈت کی ملازمت کی۔ اسی دوران سنہ ۶۹ء میں ان کی شادی ہوئی اور
زائد آمدنی کے حصول کے لیے انہوں نے پیشہ تدریس کے ساتھ پیشہ صحافت کو اختیار کیا
اور شام کے اوقات میں روزنامہ ہمارا عوام مدیر کے ایم عارف الدین سے منسلک ہوگئے۔
جہاں سب ایڈیٹر کے طور انگریزی خبروں کا انہوں نے کامیابی کے ساتھ اردو ترجمہ کیا۔
اردو میڈیم کے طالب علم کے لیے یہ ایک چیالنج سے کم نہیں کہ وہ ترجمے کے لیے انگریزی
اور اردو پر عبور رکھے چونکہ مصنف کو کرکٹ کمنٹری سننے کے سبب انگریزی پر عبور
حاصل تھا اس لیے وہ آسانی سے اخبار کی ملازمت میں اسپورٹس کی خبروں کا ترجمہ کرنے
لگے۔ بعد ازاں اپنی صلاحیت سے روزنامہ سیاست میں بہ طور سب ایڈیٹر ایک سال کام کیا۔خانگی
نوکری کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی نے سرکاری ملازمت کے حصول کے لیے تگ و
دو جاری رکھی اور آخر کار اساتذہ کے انتخاب کا سرکاری امتحان ڈی ایس سی نان لوکل حیدرآباد
سے کامیاب کیا اور اردو پنڈت جائیداد پر گولکنڈہ ہائی اسکول میں ان کا تقرر عمل میں
آیا بعد میں کالج سروس کمیشن کا امتحان کامیاب کرتے ہوئے وہ جونیر لیکچرر اردو کی
گزیٹیڈ عہدیدار کی جائیداد پر منتخب ہوئے اور ان کی پہلی پوسٹنگ ناگرکرنول پر ہوئی
اسی طرح ترقی کے زینے طے کرتے ہوئے وہ سنگاریڈی‘ظہیر آباد نظام آباد محبوب نگر میں
ملازم رہے۔ ۲۲۰۲ء میں انہیں گورنمنٹ ڈگری کالج کے پرنسپل کے عہدے پر ترقی ملی اور
اب وہ ظہیر آباد پر پرنسپل کے عہدے پر فائز ہیں۔
ایک مومن کے لیے سب سے پہلے مذہب پھر دنیا
اور اس کی مصروفیات ہوتی ہیں۔ چنانچہ دنیاوی کامیابیاں اور طمانیت حاصل کرنے کے
ساتھ ساتھ مذہب سے لگاؤ اور دین کی خدمت کے طور پر ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی نے اپنی
پہلی ملازمت کے مقام ناگرکرنول میں تبلیغی کام میں معاونت کی۔ اور ثواب جاریہ کے
طور پر مسجد کے احاطہ میں کھلی جگہ پر پانچ آر سی سی کے کمروں کی تعمیر کے لیے اہل
خیر حضرات کے تعاون سے عمارت تعمیر کرانے میں اہم کردار ادا کیا تاکہ ان کمروں کے
کرایہ سے مسجد کے اخراجات کی پابجائی ہو سکے آج بھی ناگرکرنول کے مسجد معراج کے احباب
ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کے اس کام کو یاد کرتے ہیں۔اس کے علاوہ مسجد میں دیگر دینی
کام کی داغ بیل بھی ڈالی جیسے فجر کی نماز کے بعد مفتی شفیع صاحب کی تفسیر معارف
القرآن کی تعلیم اور بعد عشاء فضائل اعمال کا درس وغیرہ۔ مصنف نے مسجد کے امام
حافظ محبوب علی کو اردو سے ایم اے کرنے کی ترغیب دی جس کی بدولت وہ پہلے کنٹریکٹ لیکچرر
منتخب ہوئے اور اب وہ ریگولر جونیر لیکچرر بن گئے ہیں اور کلواکرتی میں اپنی خدمات
انجام دے رہے ہیں۔ ناگرکرنول میں ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی نے جن طلباء کو پڑھایا
تھا ان میں سے کئی طلباء اب لیکچرر اور دیگر سرکاری ملازمتوں پر فائزہ ہیں۔اس سے
اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی نے اپنی زندگی میں جو کچھ علوم سیکھے
مشاہدات سے تجربہ حاصل کیا اور غور وفکر کیا اسے لوگوں تک پہنچایا یہ کہنا غلط نہیں
ہوگا کہ وہ علم کو عام کرنے کے ایک مثالی استاد ہیں۔ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کے
کارناموں اور کامیابیوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ انہوں نے بہت پہلے کمپیوٹر پر مہارت
حاصل کی اردو ان پیج اور یونی کوڈ لکھنے میں مہارت حاصل کی اور وہ مسلسل اردو کو ٹیکنالوجی
سے جوڑنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ دوران تدریس وہ اپنی جانب سے کی گئی تقاریر کو
فون میں ریکارڈ کرکے یوٹیوب پر پیش کرتے ہیں اس طرح یوٹیوب پر دوسو سے زائد ان کے
ویڈیو ہیں جو تعلیم اور اس سے متعلق معلومات کو پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے نصابی کتب
کی تیاری اردو نصاب کی عام فہم زبان میں تفہیم کو کمپیوٹر نوٹس اور ویڈیو کی شکل میں
تیار کیا ہے۔ وہ کالج کی سرگرمیوں کو ریکارڈ کرکے یوٹیوب پر پیش کرتے ہیں جس سے دیگر
لوگوں کو اس طرح کے کام کی ترغیب ہوتی ہے۔ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کے تحریر کردہ
مضامین اردو کے اخبارات سیاست‘ منصف‘ اعتماد کے ادبی صفحات کی زینت بنتے رہے اس کے
علاوہ اردو کے مشہور رسائل اردو دنیا نئی دہلی‘ ایوان اردو نئی دہلی‘ قومی زبان حیدرآباد
روزنامہ جنگ کراچی میں بھی شائع ہوئے۔
ڈاکٹر
محمد اسلم فاروقی نے نظام آباد قیام میں گری راج کالج میں ملازمت کے دوران قومی
اردو سمینار بہ عنوان”اکیسویں صدی اردو ادب چیلنجز اور ان کا حل“ اور دوسرا سمینار”اردو
ادب تہذیبی قدریں ماضی حال اور مستقبل“ کامیابی سے منعقد کیا۔ اس سمینار میں ماہر
اقبالیات و ماہر انیس و فیض ڈاکٹر سید تقی عابدی نے کناڈا سے براہ راست اسکائپ ویڈیو
کالنگ لیکچر پیش کیا جو اردو ادب میں پہلی کوشش تھی۔گری راج کالج کے شعبہ انگریزی
کے صدر رہے اور ایک انگریزی قومی سمینار بھی انہوں نے کروایا۔ ڈاکٹر محمد اسلم
فاروقی نے این ٹی آر کالج محبوب نگر میں بھی ملازمت کے دوران فروغ اردو کی سرگرمیوں
میں حصہ لیا۔وہ کالج کے وائس پرنسپل روسا اور آئی کیو اے سی کو آرڈینیٹر کالج کے میگزین
درپن کے مدیر اور ویب سائٹ کے تخلیق کار رہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی
کو ۹۱۰۲ ء میں حکومت تلنگانہ کی جانب سے ریاستی سطح کا بیسٹ ٹیچر ایوارڈ دیا
گیا۔ بزم علم و ادب نے انہیں علمبردار اردو ایوارڈ بھی دیا۔اولاد کی کامیابی کے پیچھے
والدین کی تربیت ہوتی ہے۔ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کے والد محمد ایوب فاروقی صابی ایمپلائمنٹ
آفیسر کے علاوہ ایک اچھے شاعر اور ادیب تھے۔ انہوں نے انگریزی اور میڈییسن کی تعلیم
بھی حاصل کی تھی ان کے دونوں فرزند ڈاکٹر محمد احسن فاروقی اور ڈاکٹر محمد اسلم
فاروقی سرکاری ملازمت میں ابتداء سے گزیٹیڈ عہدیدار رہے جس پر ان کے والدین کو فخر
رہا۔ان کے مرحوم والد ڈاکٹر بننا چاہتے تھے اور ایم اے اردو کے بعد لیکچرر بننا
چاہتے تھے لیکن حالات نے ان کا ساتھ نہیں دیا لیکن ان کے بڑے بیٹے طب کے ڈاکٹر اور
چھوٹے بیٹے ادب کے ڈاکٹر اور لیکچرر و پرنسپل بن کر ان کے والد مرحوم کے خوابوں کی
تکمیل کیے۔
ڈاکٹر
محمد اسلم فاروقی نے اپنی آپ بیتی میں واضح کیا کہ بچپن سے انہیں مطالعے کا شوق
تھا والد شاعر تھے لیکن انہیں نثر میں مہارت حاصل ہوئی اور وہ مضامین لکھنے لگے یہ
مضامین کتابی شکل میں شائع ہوئے اور ایک کے بعد ایک ان کی بارہ کتابیں اشاعت کے زیور
سے آراستہ ہو کر ریختہ ویب سائٹ ان کے بلاگ اور امیزان انٹرنیشنل پر دستیاب ہیں۔ڈاکٹر
محمد اسلم فاروقی کی تصانیف میں ان کا ایم فل کا مقالہ ”عزیز احمد کی ناول نگاری
کا تنقیدی جائزہ“ اور پی ایچ ڈی کا مقالہ”برطانیہ میں اردو اور حبیب حیدرآبادی“
شامل ہیں۔ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی نے مزاح نگاری پر بھی توجہ دی۔ روزنامہ منصف کے
کالم زیر و زبر میں ہر ہفتہ ان کا مزاحیہ مضمون شائع ہوتا ہے یہ مضامین انشائے عصر
کے نام سے شائع ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی ایک اچھے مترجم بھی ہیں انٹرمیڈیٹ
کی تاریخ شہریت کامرس مضامین کی کتابوں کے لیے انہوں نے مضامین ترجمہ کیے۔ ماحولیاتی
مطالعہ کتاب میں ان کے ترجمہ شدہ مضامین شامل ہیں۔ اس کے علاوہ امبیڈکر اوپن یونیورسٹی
کی کتاب کے وہ مدیر ہیں اور دیگر کتابوں میں ان کے تحقیقی مضامین شامل ہیں۔ ڈاکٹر محمد
اسلم فاروقی نے اپنے مشاغل میں ٹیکنالوجی کے ساتھ ان کا سفر ریڈیو سے وابستگی کی یادوں
کو دلچسپ انداز میں پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کو ۸۰۰۲ ء میں اپنی اہلیہ کے ساتھ حج بیت اللہ کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔
انہوں نے اپنی آپ بیتی کے آخر میں زندگی کے تعلق سے اپنے مطمع نظر کو پیش کیا ہے
کہ وہ ادب برائے ادب کے بجائے ادب برائے زندگی کے نظریے پر یقین رکھتے ہیں۔چنانچہ
انہوں نے عزیز احمد کے ناولوں میں جنسی رویوں پر اپنی تنقیدی رائے پیش کی ہے۔ تنقید
میں تاثراتی تنقید کے حامل ہیں اردو ادب کے مشہور ناقد آل احمد سرور کے تنقیدی رویے
کی تقلید کرتے ہیں اور اپنے مضامین میں توضیح و تشریح کو پیش کرتے ہین۔ اس آپ بیتی
سے معلوم ہوا کہ وہ سوشلسٹ نظریات کو پسند کرتے ہیں اور ایسا نظام چاہتے ہیں جس میں
عام لوگوں کی شراکت داری ہو اور ان کے تکالیف و مسائل کو دور کرنے کی سعی کی جائے۔
ایک ایسے دور میں جب کہ وقت کا کارواں تیزی سے گزرتا جارہا ہے اردو کے کئی نامور
شعرا اور ادیب زندگی کے تجربات اپنے سینے میں رکھے دنیا سے گزرتے جارہے ہیں اگر ادیب
و شاعر اپنی آپ بیتی لکھیں تو ان کی زندگی اور دور کے واقعات آپ بیتی کے ذریعے
محفوظ ہوسکتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی نے اپنی آپ بیتی لکھ کر ایک اچھی روایت
قائم کی ہے جس پر دوسرے اردو دانوں کو چلنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ کتاب کا عنوان بھی
دلچسپ ہے کہنے کو تو اس کا نام پل دو پل کی زندگانی ہے لیکن اس کتاب میں ڈاکٹر
محمد اسلم فاروقی نے اپنے پچاس سالہ سفر زندگی کو سمیٹ لیا ہے۔ ان کی آپ بیتی
انٹرنیشنل ویب سائٹ پنجند پر مطالعے کے لیے دستیاب ہے۔ اس کے علاوہ مصنف سے رابطہ
کرکے حاصل کی جاسکتی ہے۔ یہ آب بیتی اردو کے ایک مسافر کی داستان ہے جس نے جہد
مسلسل سے مثالی کامیابی حاصل کی ہے۔